Notice: Function _load_textdomain_just_in_time was called incorrectly. Translation loading for the paroti domain was triggered too early. This is usually an indicator for some code in the plugin or theme running too early. Translations should be loaded at the init action or later. Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 6.7.0.) in /home/darulift/public_html/wp-includes/functions.php on line 6121
ڈو(DOVE)صابن استعمال کرناکیساہے؟: - Darul Ifta Mardan
  • muftisaniihsan@google.com
  • 03118160190
0
Your Cart
No products in the cart.

ڈو(DOVE)صابن استعمال کرناکیساہے؟:

سوال:
   ڈو(DOVE) صابن کے بارے میں یہ بات مشہور ہوچکی ہے کہ اس کا استعمال کرنا درست نہیں، اور اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ اس میں خنزیر کی چربی استعمال کی جاتی ہے تو اس کا استعمال جائز ہے یا نہیں؟
جواب:
   واضح رہے کہ جب تک کسی چیز کے بارے میں یقینی طور پر معلوم نہ ہوجائے کہ اس میں خنزیر یا کسی حرام جانور کی چربی استعمال ہوئی ہے اس وقت تک اس چیز کو حرام نہیں سمجھنا چاہیے، البتہ یقینی طور پر معلوم ہوجائے کہ فلاں چیز میں خنزیر وغیرہ کی چربی استعمال ہوئی ہے تو اس کے استعمال سے بچنا ضروری ہے، لیکن صابن کے بارے میں یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اگر بالفرض اس میں اس قسم کی کوئی حرام چیز یقینی طور پر ملائی گئی ہے تو چونکہ صابن کو بناتے وقت کیمیاوی عمل سے گزارا جاتا ہے جس کی وجہ سے اس کی ماہیت  بدل جاتی ہے، اور ماہیت بدلنے سے وہ صابن پاک ہوجاتا ہے، لہذا  ڈو (DOVE) صابون کا استعمال کرنا جائز ہے۔

حوالہ جات:
1. رد المحتار لابن عابدين، كتاب الطهارة، مطلب نواقض الوضوء 1/ 148:
   فإن الشك والاحتمال لا يوجب الحكم بالنقض، إذ اليقين لا يزول بالشك.
2. البحر الرائق لزين الدين ابن نجيم، كتاب الطهارة، باب الأنجاس 1/ 239:
   وفي المجتبى جعل الدهن النجس في صابون يفتى بطهارته؛ لأنه تغير والتغيير يطهر عند محمد ويفتى به للبلوى

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:793
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-28

 

image_pdfimage_printپرنٹ کریں