Notice: Function _load_textdomain_just_in_time was called incorrectly. Translation loading for the paroti domain was triggered too early. This is usually an indicator for some code in the plugin or theme running too early. Translations should be loaded at the init action or later. Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 6.7.0.) in /home/darulift/public_html/wp-includes/functions.php on line 6121
بیوی طلاق کا دعوی کرے اور شوہر منکر ہو : - Darul Ifta Mardan
  • muftisaniihsan@google.com
  • 03118160190
0
Your Cart
No products in the cart.

بیوی طلاق کا دعوی کرے اور شوہر منکر ہو :

سوال:
  زید کی بیوی کا بیان ہے کہ مجھے میرے شوہر زید نے تین طلاقیں دی ہیں، اور زید طلاق دینے سے انکار کرتا ہے، اس صورت میں کس کا قول معتبر ہوگا؟ 
جواب:
   میاں بیوی کے درمیان جب طلاق دینے میں اختلاف ہوجائے، بیوی طلاق کا دعوی کرے اورشوہر انکار کرے، تو اگر بیوی کے پاس طلاق کے ثبوت پر دو عادل گواہ موجود ہوں، تو بیوی کا قول معتبر ہوگا، یعنی طلاق واقع ہوجائے گی، اور اگر بیوی کے پاس گواہ موجود نہ ہوں، تو قسم کے ساتھ شوہر کا قول معتبر ہوگا، اگر وہ طلاق نہ دینے پر قسم کھائے تو طلاق واقع نہ ہوگی، اور اگر قسم  کھانے سے انکار کرے تو طلاق واقع ہوجائے گی، تاہم اگر بیوی کو یقین ہو کہ شوہر نے طلاق دی ہے لیکن وہ اپنی بات ثابت کرنے سے قاصر ہو تو بیوی کو چاہیے کہ شوہر کو اپنے اوپر قدرت نہ دے بلکہ ماں باپ کے گھر بیٹھ جائے اور شوہر کو مال وغیرہ کا لالچ دے کر اس سے اپنی جان چھڑائے یا عدالت میں تنسیخ نکاح کا کیس دائر کرکے تنسیخ نکاح کی ڈگری وصول کرے، لیکن اگر خلاصی کی کوئی صورت نظر نہ آئے اور مجبورا  اس شوہر کے ساتھ رہنا پڑے تو ایسی صورت عورت عند اللہ معذور ہوگی اور سارا گناہ شوہر پر ہوگا۔

حوالہ جات:
1. سنن الترمذي، أبواب الأحكام ، باب ما جاء في أن البينة على المدعي، واليمين على المدعى عليه، الرقم: 1341:
   عن عمرو بن شعيب، عن أبيه، عن جده، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال في خطبته: البينة على المدعي، واليمين على المدعى عليه.
2. الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب الكراهية، الباب الثاني في العمل بغالب الرأي 5/ 313:
   وكذلك إن سمعت أنه طلقها ثلاثا، وجحد الزوج ذلك، وحلف فردها عليه القاضي لم يسعها المقام معه، وينبغي لها أن تفتدي بمالها.
3. الدر المختار للحصكفي، كتاب الطلاق، باب صريح الطلاق 3/ 251:
   والمرأة كالقاضي إذا سمعته أو أخبرها عدل لا يحل له تمكينه. والفتوى على أنه ليس لها قتله، ولا تقتل نفسها بل تفدي نفسها بمال أو تهرب، كما أنه ليس له قتلها إذا حرمت عليه وكلما هرب ردته بالسحر. وفي البزازية عن الأوزجندي أنها ترفع الأمر للقاضي، فإنه حلف ولا بينة لها فالإثم عليه. اهـ. قلت: أي إذا لم تقدر على الفداء أو الهرب ولا على منعه عنها فلا ينافي ما قبله.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:776
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-27

image_pdfimage_printپرنٹ کریں