Notice: Function _load_textdomain_just_in_time was called incorrectly. Translation loading for the paroti domain was triggered too early. This is usually an indicator for some code in the plugin or theme running too early. Translations should be loaded at the init action or later. Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 6.7.0.) in /home/darulift/public_html/wp-includes/functions.php on line 6121
@123قبرستان پر چھت ڈال کر مدرسہ بنانا - Darul Ifta Mardan
  • muftisaniihsan@google.com
  • 03118160190
0
Your Cart
No products in the cart.

@123قبرستان پر چھت ڈال کر مدرسہ بنانا

سوال:
چند معلوم مالکان کی قبرستان کے لیے زمین ہے، اور تمام مالکان راضی ہیں کہ مذکورہ زمین پر چھت ڈال کر مدرسہ تعمیر کیا جائے، کیا ایسی زمین پر چھت ڈال کر مدرسہ بنانا جائز ہے یا نہیں؟
جواب:
اگر مذکورہ زمین قبرستان کے لیے وقف کی گئی ہو، تو اس پر چھت ڈال کر مدرسہ وغیرہ بنانا جائز ہے، البتہ چھت ڈال کر مدرسہ بنانے میں درج ذیل باتوں کا خیال رکھا جائے:
1: اگر وہ جگہ کسی کی مملوک ہو تو اس سے جازت لے کر، اور اگر وقف شدہ ہو تو باہمی مشورہ سے اس جگہ پلرز بنا کر چھت ڈالی جائے۔
2: جس جگہ پلرز لگائے جا رہے ہوں، وہاں قبریں نہ ہوں، اگر ہوں، تو وہ اتنی بوسیدہ ہو چکی ہوں کہ میت کے اجزاء وغیرہ باقی نہ رہے ہوں۔

حوالہ جات:
لمافي عمدة القاري لبدر الدين العينى، باب هل تنبش قبور مشركي الجاهلية إلخ، 4/ 179 تحت الرقم: 84:
فإن قلت: هل يجوز أن تبنى على قبور المسلمين؟ قلت: قال ابن القاسم: لو أن مقبرة من مقابر المسلمين عفت، فبنى قوم عليها مسجدا لم أر بذلك بأسا، وذلك لأن المقابر وقف من أوقاف المسلمين لدفن موتاهم، لا يجوز لأحد أن يملكها، فإذا درست واستغنى عن الدفن فيها، جاز صرفها إلى المسجد لأن المسجد أيضا وقف من أوقاف المسلمين لا يجوز تملكه لأحد، فمعناهما على هذا واحد، وذكر أصحابنا أن المسجد إذا خرب ودثر، ولم يبق حوله جماعة، والمقبرة إذا عفت ودثرت تعود ملكا لأربابها، فإذا عادت ملكا، يجوز أن يبنى موضع المسجد دارا، وموضع المقبرة مسجدا وغير ذلك.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:622
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-13

image_pdfimage_printپرنٹ کریں