Notice: Function _load_textdomain_just_in_time was called incorrectly. Translation loading for the paroti domain was triggered too early. This is usually an indicator for some code in the plugin or theme running too early. Translations should be loaded at the init action or later. Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 6.7.0.) in /home/darulift/public_html/wp-includes/functions.php on line 6121
@123یتیم خانہ میں زکوۃ دینے کا طریقہ - Darul Ifta Mardan
  • muftisaniihsan@google.com
  • 03118160190
0
Your Cart
No products in the cart.

@123یتیم خانہ میں زکوۃ دینے کا طریقہ

سوال:
یتیم خانہ میں جہاں بالغ ونابالغ دونوں قسم کے بچے ہوں، زکوۃ دینا کیسا ہے؟
جواب:
واضح رہے کہ زکوۃ میں تملیک ضروری ہے اور تملیک کا مطلب یہ ہے، کہ زکوۃ کی رقم خود مستحق شخص کو یا اس کے وکیل کو مالک بنا کر دی جائے، اس کے بغیر زکوۃ ادا نہیں ہوتی، لہذا یتیم خانہ میں زکوۃ دینے کا درست طریقہ یہ ہے کہ زکوۃ کی رقم یتیم خانہ کے بچوں کو دے کر باقاعدہ ان کو مالک بنایا جائے، پھر ان یتیم بچوں پر ادارہ کی طرف سے ماہانہ جتنا خرچہ آتا ہوں اس ماہانہ خرچہ کے مد میں ان سے یہ رقم جمع کرائی جائے، تاہم اگر اس طرح کرنے میں مشکلات ہوں، تو یہ بھی جائز ہے کہ یتیم خانہ کے منتظمین بالغ مستحق زکوۃ بچوں سے براہِ راست اور نابالغ مستحق زکوۃ بچوں کے سرپرستوں سے تحریری اجازت نامہ لے لیں، کہ ہم آپ لوگوں کی طرف سے زکوۃ وصول کریں گے، اور وہ زکوۃ کی پیسے اپ کے بچوں کے اوپر خرچ کریں گے، تو اس صورت میں یتیم خانہ کو زکوۃ دینا درست ہے، یعنی منتظمین کو وکیل بالقبض والتصرف بنا لیں، پھر منتظمین اپنی صوابدید کے مطابق ان کی ضروریات میں اس کو خرچ کردیا کریں۔

حوالہ جات:
لما في الدر المختار للحصكفي مع رد المحتار، كتاب الزكاة، باب المصرف 3/ 203:
(هي) لغة الطهارة والنماء، وشرعا (تمليك) خرج الإباحة، فلو أطعم يتيما ناويا الزكاة لا يجزيه إلا إذا دفع إليه المطعوم، كما لو كساه بشرط أن يعقل القبض إلا إذا حكم عليه بنفقتهم. قال ابن عابدين تحت قوله:(بشرط أن يعقل القبض… فإن لم يكن عاقلا، فقبض عنه أبوه أو وصيه أو من يعوله قريبا أو أجنبيا، أو ملتقطه صح كما البحر والنهر.
وفي البحر الرائق لابن نجيم،  كتاب الزكاة، باب مصرف الزكاة 2/ 424:
وأشار المصنف إلى أنه لو أطعم يتيما بنيتها لا يجزئه؛ لعدم التمليك إلا إذا دفع له الطعام كالكسوة إذا كان يعقل القبض، وإلا فلا، ولو دفع الصغير إلى وليه، كذا في الخانية.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:568
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-08

image_pdfimage_printپرنٹ کریں