چوکیدار کی موجودگی میں چوری کا ضمان کس پر ہوگا؟
سوال:
ایک شخص کو مارکیٹ کے دکاندار چوکیداری پر رکھ کر ماہانہ تنخواہ دیتے ہیں، اب اگر اس مارکیٹ کے دکانوں سے رات کے وقت کوئی چیز چوری ہو جائے، تو یہ چوکیدار ضامن ہوگا یا نہیں؟
جواب:
مذکورہ صورت میں اگر چوکیدار کی غفلت یا کوتاہی کی وجہ سے یہ چوری ہوئی ہو، مثلا وہ سویا ہو، یا گھومنے پھرنے چلا گیا ہو، یا اس دوران کسی اور کام میں مصروف ہوگیا ہو، اور چور نے دکان کا دروازہ یا تالہ توڑ کر چوری کی ہو تو چوکیدار ضامن ہوگا، اور اگر چوکیدار رات بھر نگرانی کرتا رہا لیکن دکان سے چوری دروازے کی طرف سے نہیں ہوئی بلکہ پیچھے کی جانب سے ہوئی یا اوپر چھت کی جانب سے ہوئی يعنی چوکیدار کی غفلت اس میں شامل نہ تھی تو چوکیدار ضامن نہ ہوگا۔
حوالہ جات:
1. بدائع الصنائع، كتاب الإجارة، فصل في حكم الإجارة 4/ 211:
وإن كان الأجير خاصا فما في يده يكون أمانة في قولهم جميعا، حتى لو هلك في يده بغير صنعه لايضمن.
2. المحيط البرهاني لابن ماذه الحنفي، كتاب الإجارة، الفصل في بيان حكم الأجير الخاص والمشترك 12/ 65:
رجل استؤجر لحفظ الخان، فسرق من الخان شيئ لا ضمان عليه؛ لأنه يحرس الأبواب، أما الأموال فهو في يد أربابها، فلا يضمن إلا بالتضييع، ولم يوجد، هذا جواب الفقية أبي جعفر رحمه الله، قال الفقيه أبوبكر رحمه الله: عندي أن الحارس أجير خاص، ألا ترى أنه لو أراد أن يشغل نفسه في صنف آخر لم يكن له ذلك، والفتوى على قول الفقيه أبي بكر والفقيه أبي جعفر رحمهما الله.
3. رد المحتار لابن عابدين، كتاب الإجارة، مطلب في الحارس والخاناتي 6/ 71:
(قوله وكذا لا ضمان على حارس السوق وحافظ الخان) قال في جامع الفصولين: استؤجر رجل لحفظ خان أو حوانيت فضاع منها شيء: قيل ضمن عند أبي يوسف ومحمد لو ضاع من خارج الحجرة؛ لأنه أجير مشترك وقيل: لا في الصحيح، وبه يفتى؛ لأنه أجير خاص، ألا ترى أنه لو أراد أن يشغل نفسه في صنع آخر لم يكن له ذلك، ولو ضاع من داخلها بأن نقب اللص فلا يضمن الحارس في الأصح إذ الأموال المحفوظة في البيوت في يد مالكها وحارس السوق على هذا الخلاف اهـ وكذا في الذخيرة. قال في الحامدية: ويظهر من هذا أنه إذا كسر قفل الدكان وأخذ المتاع يضمن الحارس اهـ.
4. الفتاوى البزازية للبزاز الكردري، كتاب الصرف، 6/ 37:
نقب حانوت رجل وأخذ متاعه لا يضمن حارس الحوانيت على ما عليه الفتوى لأن الأمتعة محروسة بأبوابها وحيطانها والحارس يحرس الأبواب.
واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی
فتوی نمبر:545
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-07
All Categories
- اجارہ کے مسائل (24)
- اذان کے مسائل (20)
- اعتقادی مسائل (36)
- اعتکاف کے مسائل (18)
- امانت کے مسائل (16)
- پاکی ناپاکی کےمسائل (152)
- حج کے مسائل (33)
- حدود کے مسائل (19)
- حظر واباحت کے مسائل (102)
- خرید وفروخت کے مسائل (71)
- خلع کے مسائل (16)
- دعوی کے مسائل (19)
- ذبائح اور شکار کے مسائل (17)
- رضاعت کے مسائل (17)
- روزے مسائل (44)
- زکوٰۃ کے مسائل (87)
- ضمان کے مسائل (17)
- طلاق کے مسائل (76)
- عمرہ کے مسائل (17)
- قربانی کے مسائل (18)
- قرض کے مسائل (24)
- قسم اور منت کے مسائل (25)
- قمار اور ربوا کے مسائل (20)
- كتاب الكراهية (51)
- کفارہ کے مسائل (22)
- مشترک کاروبار کے مسائل (17)
- میراث اور وصیت کے مسائل (18)
- نان نفقہ کے مسائل (19)
- نکاح کے مسائل (82)
- نماز کے مسائل (154)
- ہبہ کے مسائل (20)
- وقف کے مسائل (29)
- وکالت کے مسائل (20)