Notice: Function _load_textdomain_just_in_time was called incorrectly. Translation loading for the paroti domain was triggered too early. This is usually an indicator for some code in the plugin or theme running too early. Translations should be loaded at the init action or later. Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 6.7.0.) in /home/darulift/public_html/wp-includes/functions.php on line 6121
@123پگڑی کے بغیر نماز پڑھانا کیساہے؟ - Darul Ifta Mardan
  • muftisaniihsan@google.com
  • 03118160190
0
Your Cart
No products in the cart.

@123پگڑی کے بغیر نماز پڑھانا کیساہے؟

سوال:
   ایک آدمی ہیں، وہ مسجد کے امام کے پیچھے نماز اس لیے نہیں پڑھتا کہ امام صاحب پگڑی نہیں باندھتے، بلکہ ٹوپی میں نماز پڑھاتے ہے، اب سوال یہ ہے کہ امام کے لیے پگڑی باندھنا ضروری ہے، یا ٹوپی میں بھی نماز پڑھانا درست ہے؟
جواب:
   عمامہ باندھنا نماز اور غیر نماز دونوں حالتوں میں سنت ہے، امام، مقتدی اور منفرد سب کے لیے، البتہ عمامہ باندھ کر نماز پڑھنا اور پڑھانا مستحب ہے، لیکن بغیر عمامہ کے ٹوپی میں  بھی نماز پڑھنا اور پڑھانا بلا کراہت درست ہے، البتہ جس جگہ عمامہ کا اتنا رواج  ہو  کہ وہ لباس کا حصہ بن چکا ہو اور بغیر عمامہ کے معزز مجلس میں نہ جاتے ہوں، تو ایسی جگہ نماز پڑھانے کے لیے امام کو عمامہ باندھنے کا اور زیادہ اہتمام کرنا چاہیے، لیکن پگڑی باندھنے کو امام کے لیے ضروری سمجھنا اور اس کے بغیر امام پر اعتراض کرنا درست  نہیں، تاہم جس علاقہ میں لوگ امام کے لیے نماز میں عمامہ کو ضروری سمجھتے ہو ، اور عام حالت میں ضروری نہیں سمجھتے تو ایسی صورت میں عوام کے عقیدہ کی اصلاح کے لیے امام کو کبھی کبھار بغیر عمامہ کے نماز پڑھانی چاہیے تا کہ لوگوں کے عقیدہ کی اصلاح ہو سکے ۔

حوالہ جات:
لما في شعب الإيمان للبيهقي، باب الملابس والزي، فصل في العمائم، الرقم: 5851:
عن عبادة قال: قال رسول اللهﷺ: عليكم بالعمائم، فإنها سيما الملائكة، وأرخو لها خلف ظهوركم.
وفي الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب الصلاة، باب شروط الصلاة 1/ 59:
والمستحب أن يصلي في ثلاثة أثواب: قميص، وإزار، وعمامة، أما لو صلى في ثوب واحد متوشحا به، تجوز صلاته من غير كراهة.
وفي رد المحتار لابن عابدين، كتاب الطهارة، مطلب: في السنة وتعريفها 1/ 230:
والسنة نوعان: سنة الهدى، وتركها يوجب إساءة وكراهية، كالجماعة والأذان والإقامة ونحوها، وسنة الزوائد وتركها لا يوجب ذلك، كسير النبي عليه الصلاة والسلام في لباسه، وقيامه، و قعوده.
وفي عمدة الرعاية بتحشية شرح الوقاية للإمام محمد عبد الحي اللكنوي، باب مايفسد الصلاة وما يكره فيها 2/ 382:
 وقد ذکروا أن المستحب أن يصلي في قميص و إزار وعمامة، ولا يكره الإكتفاء بالقلنسوة، ولا عبرة لما اشتهر بين العوام من كراهة ذالك، وكذا ما اشتهر أن المؤتم لو كان معتما العمامة، والإمام مكتفيا على قلنسوة يكره.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:412
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-25

 

image_pdfimage_printپرنٹ کریں