Notice: Function _load_textdomain_just_in_time was called incorrectly. Translation loading for the paroti domain was triggered too early. This is usually an indicator for some code in the plugin or theme running too early. Translations should be loaded at the init action or later. Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 6.7.0.) in /home/darulift/public_html/wp-includes/functions.php on line 6121
@123دیر سے ملنے والا قرضہ مانع زکوۃ نہیں - Darul Ifta Mardan
  • muftisaniihsan@google.com
  • 03118160190
0
Your Cart
No products in the cart.

@123دیر سے ملنے والا قرضہ مانع زکوۃ نہیں

سوال:
ایک طالب علم نے تقریبا (70,000) روپے (جو کہ نصاب تک پہنچتا ہے) لوگوں کو دیے تھے، اور اسی دوران مدرسہ میں زکوۃ کی رقم اور کتابیں مستحق زکوۃ طلباء کے لیے آئیں، اور اس طالب علم کے پاس کچھ نقد پیسے نہیں تھے، اور قرضہ بھی بہت دیر سے ملنے والا تھا، اس طالب علم نے زکوۃ کی رقم اور کتابیں لیے لیں، تو اس کے لیے زکوۃ کی رقم اور کتابیں لینا جائز ہے۔
جواب:
چونکہ مذکورہ  طالب علم کو قرضہ دیر سے ملنے والا ہے، لہذا اگر یہ حاجت مند ہو، اور اس کو اپنی ضروریات کے لیے پیسوں کی ضرورت ہو، تو اس کے لیے وقت مقررہ کے آنے تک زکوۃ  کی رقم اور کتابیں لینا جائز ہے۔

حوالہ جات:
لما في البحر الرائق لزين الدين ابن نجيم، كتاب الزكاة، باب المصرف 2/ 259:
والذي له دين على إنسان، إذا احتيج إلى النفقة، يجوز له أن يأخذ من الزكاة، قدر كفايته إلى حلول الأجل، وإن كان الدين غير مؤجل، فإن كان من عليه الدين معسرا، يجوز له أخذ الزكاة في أصح الأقاويل؛ لأنه بمنزلة ابن السبيل.
وفي فتاوى قاضيخان لحسن بن منصور الأوزجندي، كتاب الزكاة، باب المصرف 1/ 131:
والذي له دين مؤجل على إنسان، إذا احتاج إلى النفقة، جاز له أن يأخذ من الزكاة، قدر كفايته إلى حلول الجل … وإن كان الدين غير مؤجل، فإن كان من عليه الدين معسراً، يجوز له أخذ الزكاة في أصح الأقاويل ؛ لأنه بمنزلة ابن السبيل.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:405
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-25

image_pdfimage_printپرنٹ کریں