Notice: Function _load_textdomain_just_in_time was called incorrectly. Translation loading for the paroti domain was triggered too early. This is usually an indicator for some code in the plugin or theme running too early. Translations should be loaded at the init action or later. Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 6.7.0.) in /home/darulift/public_html/wp-includes/functions.php on line 6121
عام راستے کی طرف پرنالہ نکالنا - Darul Ifta Mardan
  • muftisaniihsan@google.com
  • 03118160190
0
Your Cart
No products in the cart.

عام راستے کی طرف پرنالہ نکالنا

سوال:
ہمارے گاؤں میں  زید نے گھر تعمیر کیا، جب زید گھر کی بنیاد رکھ رہا تھا، تو گاؤں والوں نے زید سے کہا کہ جہاں پر آپ گھر کی بنیاد رکھ رہے ہو، یہ آپ کی ملکیت ہے، مگر بنیاد دو تین فٹ راستے سے ہٹ کر رکھ دو تاکہ راستہ کھلا رہے، مگر زید نے لوگوں کی ایک  نہ مانی اور بنیاد بالکل راستے کے کنارے پر ڈال دی، گاؤں والوں نے برا نہ مانا، کیونکہ اس نے بنیاد اپنے حصہ زمین  میں رکھی تھی، مگر جب مکان مکمل ہوا تو زید نے پرنالیں عام راستے کے طرف نکالے، اب گاؤں والے  زید سے کہتے ہیں کہ آپ یہ پرنالیں گھر کے اندرونی حصہ کے طرف لگالیں، اور زید کہتا ہے کہ میں پرنالیں راستے کے طرف نکالوں گا، کیونکہ اس راستے میں جس طرح گاؤں والوں کا حق ہے اسی طرح میرا بھی ہے، اور راستہ بھی ایسا ہے جس پر آدھے گاؤں کی آمد ورفت ہے، کیا زید کے یہ بات درست ہے کہ اس راستے میں میرا بھی حق ہے؟ اور عام راستے کی طرف پرنالیں لگانا درست ہے یا نہیں؟  
جواب:
واضح رہے کہ راستہ چونکہ مشترکہ طور پر تمام لوگوں کی گزرگاہ ہے، اس لیے اس میں کوئی ایسا تصرف کرنا جس سے عام لوگوں کو تکلیف ہو جائز نہیں، احادیث میں ایسے شخص  کے لیے جو دوسروں کی تکلیف کا باعث بنے سخت وعید آئی ہے، لہذا عام راستے کے طرف پرنالہ نکالنا شرعا ناجائز ہے۔

حوالہ جات:
لما في سنن الكبرى للبيهقي، باب لا ضرر ولا ضرار، الرقم:11384:
عن أبي سعيد الخدري، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:  لا ضرر ولا ضرار، من ضار ضره الله، ومن شاق شق الله عليه .
وفي تبيين الحقائق لعثمان بن علي الزيلعي، كتاب البيوع، باب ما يحدث الرجل سي الطريق 6/ 142:
(باب ما يحدثه الرجل في الطريق) قال رحمه الله : (ومن أخرج إلى الطريق العامة كنيفا، أو ميزابا، أو جرصنا، أودكانا فلكل نزعه) أي: لكل أحد من أهل الخصومة مطالبته بالنقض كالمسلم البالغ العاقل الحر، أو الذمي؛ لأن لكل منهم المرور بنفسه وبدوابه، فيكون له الخصومة بنقضه كما في الملك المشترك.
وفي الهدايه لعلي بن أبي بكر المرغيناني، كتاب البيوع، باب ما يحدث الرجل في الطريق  4/ 473:
قال: ”ومن أخرج إلى الطريق الأعظم كنيفا، أو ميزابا، أو جرصنا، أو بنى دكانا فلرجل من عرض الناس أن ينزعه“ لأن كل واحد صاحب حق بالمرور بنفسه وبدوابه فكان له حق النقض،كما في الملك المشترك فإن لكل واحد حق النقض لو أحدث غيرهم فيه شيئا فكذا في الحق المشترك.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:363
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-23

image_pdfimage_printپرنٹ کریں