کرایہ کی گاڑی کی مرمت کس کے ذمہ ہوگی؟:
سوال:
ایک آدمی نے رکشہ خریدا اور دوسرے آدمی کے حوالہ کیا کہ روزانہ مجھے 500 روپیاں دیا کرو، باقی جتنا بچے گا وہ آپ کا ہوگا اور تیل کا خرچہ بھی آپ کے ذمہ ہوگا، تو شرعاً یہ معاملہ درست ہے یا نہیں؟ نیز اگر اس رکشہ میں خرابی آگئی تو اس کی مرمت کس کے ذمہ ہوگی؟
جواب:
مذکورہ طریقہ سے یہ معاملہ کرنا شرعا درست نہیں، البتہ اس کی درست صورت یہ ہے کہ رکشہ کا مالک اس کو اپنا رکشہ کرایہ پر دے اور اس سے یہ طے کرے کہ مجھے روزانہ پانچ سو(500) روپے دینے ہوں گے، چاہے تمہیں مزدوری کم ہو یا زیادہ اس سے مجھے کوئی سروکار نہیں، باقی گاڑی میں اگر کوئی بڑی خرابی آئے جیسے انجن وغیرہ خراب ہو جائے تو اس کا خرچہ مالک پر ہوگا، اس کو فقہی اصطلاح میں ”الصیانية الأساسية “ کہا جاتا ہے اور اگر کوئی معمولی خرابی آئے جیسے کہ ٹائر پنکچر ہوگیا وغیرہ تو اس کا خرچہ ڈرائیور پر ڈالا جاسکتا ہے، اس کو فقہی اصطلاح میں ”الصیانية العادية “ کہا جاتا ہے۔
حوالہ جات:
1. رد المحتار لابن عابدين، كتاب الإجارة 6/ 47:
في الظهيرية: استأجر عبدا أو دابة على أن يكون علفها على المستأجر، ذكر في الكتاب أنه لا يجوز، وقال الفقيه أبو الليث: في الدابة نأخذ بقول المتقدمين، أما في زماننا فالعبد يأكل من مال المستأجر عادة، قال الحموي: أي فيصح اشتراطه، … وفي البزازية: ولو امتلأ مسيل الحمام فعلى المستأجر تفريغه ظاهرا كان أو باطنا، وتسييل ماء الحمام وتفريغه على المستأجر، وإن شرط نقل الرماد والسرقين رب الحمام على المستأجر لا يفسد العقد، وإن شرط على رب الحمام فسد اهـ فتأمل، ولعله مفرع على القياس أو مبني على العرف ففي البزازية: وفي استئجار الطاحونة في كرى نهرها يعتبر العرف.
2. مجمع الأنهر، كتاب الإجارة 2/ 391:
(والمتاع في يده) أي في يد الأجير (أمانة لا يضمن إن هلك) المتاع من غير فعله عند الإمام(وإن) وصلية (شرط) عليه (ضمانه)؛ لأنه شرط لا يقتضيه العقد (به) أي بعدم الضمان (يفتى).
3. بدائع الصنائع للكاساني، كتاب الإجارة 4/ 182:
ولو قال: أجرتك هذه الدار سنة كل شهر بدرهم جاز بالإجماع؛ لأن المدة معلومة والأجرة معلومة فلا يجوز ولايملك أحدهما الفسخ قبل تمام السنة من غير عذر، ولو لم يذكر السنة فقال: أجرتك هذه الدار كل شهر بدرهم جاز في شهر واحد عند أبي حنيفة، … وإذا جاز في الشهر الأول لا غير عند أبي حنيفة، فلكل واحد منهما أن يترك الإجارة عند تمام الشهر الأول، فإذا دخل الشهر الثاني.
4. خلاصة الفتاوى لطاهر بن عبد الرشيد، كتاب الإجارة3/ 147 :
وعمارة الدار وتطییینھا واصلاح میزابھا على الآجر … قال في المحيط: فإن شرط رب الحمام على المستاجر نقل الرماد والسرقين لا يفسد العقد، قال الفقيه ابو الليث: المعتبر في ذلك عادات الناس في تلك البلدة، ولو طلب من المكاري أن يدخل بيته فالمعتبر هو العرف.
واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی
فتوی نمبر:399
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-19
All Categories
- اجارہ کے مسائل (24)
- اذان کے مسائل (20)
- اعتقادی مسائل (36)
- اعتکاف کے مسائل (18)
- امانت کے مسائل (16)
- پاکی ناپاکی کےمسائل (152)
- حج کے مسائل (33)
- حدود کے مسائل (19)
- حظر واباحت کے مسائل (102)
- خرید وفروخت کے مسائل (71)
- خلع کے مسائل (16)
- دعوی کے مسائل (19)
- ذبائح اور شکار کے مسائل (17)
- رضاعت کے مسائل (17)
- روزے مسائل (44)
- زکوٰۃ کے مسائل (87)
- ضمان کے مسائل (17)
- طلاق کے مسائل (76)
- عمرہ کے مسائل (17)
- قربانی کے مسائل (18)
- قرض کے مسائل (24)
- قسم اور منت کے مسائل (25)
- قمار اور ربوا کے مسائل (20)
- كتاب الكراهية (51)
- کفارہ کے مسائل (22)
- مشترک کاروبار کے مسائل (17)
- میراث اور وصیت کے مسائل (18)
- نان نفقہ کے مسائل (19)
- نکاح کے مسائل (82)
- نماز کے مسائل (154)
- ہبہ کے مسائل (20)
- وقف کے مسائل (29)
- وکالت کے مسائل (20)