@123طویل المیعادقرضہ مال زکوٰۃ سے منہا کرنے کا حکم
سوال:
میرے پاس کل پچیس لاکھ روپے تھے، میں نے پچاس لاکھ روپے کی گاڑی خریدلی، اس میں دس لاکھ روپے نقد دیئے اور بقایا چالیس لاکھ روپے ادا کرنے کے لیے میں ہر ماہ پچاس ہزار روپے ادا کروں گا، اب میرے پاس کل سرمایہ پندرہ لاکھ رہ گیا اور بقایا چالیس لاکھ روپے ہیں، تو اب یہ پندرہ لاکھ جو میرے پاس نقد کی شکل میں ہے، اس میں زکوٰۃ ادا کرنا ہوگا یا نہیں؟
جواب:
جب قرضہ طویل المیعاد ہوتا ہے، تو اس میں صرف ایک سال کی قسطوں کے بقدرِ مال نصاب سے منہا کیا جاتا ہے، باقی قرضہ منہا نہیں کیا جاتا، لہٰذا مذکورہ صورت میں ایک سال کی ادا طلب قسطوں یعنی چھ لاکھ (600000) کی رقم منہا کرکے باقی پیسوں یعنی نو لاکھ (900000) روپے کی زکوٰۃ ادا کرنا واجب ہے۔
حوالہ جات:
لما في الدر المختار للحصكفي مع رد المحتار،كتاب الزكاة 3 /208:
(وسببه) أي: سبب افتراضها(ملك نصاب حولي) نسبه للحول لحولانه عليه (تام) بالرفع صفة ملك، خرج مال المكاتب.
أقول: إنه خرج باشتراط الحرية، على أن المطلق ينصرف للكامل، ودخل ما ملك
بسبب خبيث كمغصوب خلطه إذا كان له غيره منفصل عنه يوفي دينه (فارع عن دينه له مطالب من جهة العباد) سواء كان لله كزكاة وخراج، أوللعبد ولو كفالة أو مؤجلا.
قال ابن عابدين تحت قوله:(أو مؤجلا إلخ) عزاه في المعراج إلى شرح الطحاوي، وقال: وعن أبي حنيفة لايمنع، وقال الصدر الشهيد: لا رواية فيه، ولكل من المنع وعدمه وجه، زاد القهستاني عن الجواهر: والصحيح أنه غير مانع.
وفي المحيط البرهاني لابن مازة الحنفي،كتاب الزكاة، الفصل العاشر في بيان مايمنع وجوب الزكاة 2/ 293:
قال اصحابنا رحمهم الله: کل دین له مطالب من جهة العباد يمنع وجوب الزكاة، سواء كان الدين للعباد، أو لله تعالى کدین الزکاة.
وفي مجمع الأنهر لداماد أفندي، كتاب الزكاة، باب شرط وجوب الزكاة 1/ 193:
(فارغ) صفة النصاب (عن الدين) والمراد دين له مطالب من جهة العباد سواء كان الدين لهم، أو لله تعالى، وسواء كانت المطالبة بالفعل، أو بعد زمان، فينتظم الدين المؤجل، ولو صداق زوجته المؤجل إلى الطلاق أو الموت وقيل: لا يمنع؛ لأنه غير مطالب به عادة بخلاف المعجل.
وفي الجوهرة النيرة لأبي بكر الحدادي، كتاب الزكاة 1/ 286:
(ومن کان عليه دين يحيط بماله فلا زكاة عليه) … (وإن كان ماله أكثر من الدين زكي الفاضل إذا بلغ نصابا)لفراغه عن الحاجة.
واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی
فتوی نمبر:232
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-12-26
All Categories
- اجارہ کے مسائل (24)
- اذان کے مسائل (20)
- اعتقادی مسائل (36)
- اعتکاف کے مسائل (18)
- امانت کے مسائل (16)
- پاکی ناپاکی کےمسائل (152)
- حج کے مسائل (33)
- حدود کے مسائل (19)
- حظر واباحت کے مسائل (102)
- خرید وفروخت کے مسائل (71)
- خلع کے مسائل (16)
- دعوی کے مسائل (19)
- ذبائح اور شکار کے مسائل (17)
- رضاعت کے مسائل (17)
- روزے مسائل (44)
- زکوٰۃ کے مسائل (87)
- ضمان کے مسائل (17)
- طلاق کے مسائل (76)
- عمرہ کے مسائل (17)
- قربانی کے مسائل (18)
- قرض کے مسائل (24)
- قسم اور منت کے مسائل (25)
- قمار اور ربوا کے مسائل (20)
- كتاب الكراهية (51)
- کفارہ کے مسائل (22)
- مشترک کاروبار کے مسائل (17)
- میراث اور وصیت کے مسائل (18)
- نان نفقہ کے مسائل (19)
- نکاح کے مسائل (82)
- نماز کے مسائل (154)
- ہبہ کے مسائل (20)
- وقف کے مسائل (29)
- وکالت کے مسائل (20)