سنتوں کے بعد اجتماعی دعا کرنا
سوال:
ایک مرتبہ فرض نماز کے بعد دعا ہوجائے، تو پھر امام کا نماز کی سنتوں کے بعد دوبارہ اجتماعی دعا مانگنا جائز ہے یا نہیں؟
جواب:
امام کو فرض نماز کے بعد دعا کرلینی چاہیے، سنتوں کے بعد اجتماعی طور پر دعا کا اہتمام کرنا درست نہیں ہے، بلکہ سنتوں کے بعد دعا انفرادی طورپر کرنی چاہیے کیونکہ فرض نماز باجماعت ادا کرنے کے بعد سنت اور نفل نماز انفرادی طورپر ادا کی جاتی ہے، لہذا اس کے بعد اجتماعی دعا مانگنا نبی کریمﷺ، صحابہ رضی اللہ عنہم، تابعین، تبع تابعین اور سلفِ صالحین سے ثابت نہیں ہے، اس لیے اس سے احتراز کرنا ضروری ہے، تاہم سنت اور لازم نہ سمجھتے ہوئے کبھی کبھار اگر کسی نے سنتوں کے بعد دعا مانگ لی، تو اس کی گنجائش ہے۔
حوالہ جات:
1. إعلاء السنن لظفر أحمد العثماني، كتاب الصلاة، بيان ما يقرأ إذا فرغ من الصلاة 3/ 205:
ورحم الله طائفة من المبتدعة في بعض أقطار الهند حيث واظبوا على أن الإمام، ومن معه يقومون بعد المكتوبة بعد قرائتهم: (أللهم أنت السلام ومنك السلام إلخ)، ثم إذا فرغوا من فعل السنن والنوافل يدعو الإمام عقب الفاتحة جهرا بدعاء مرة ثانية، والمقتدون يؤمنون على ذلك، وقد جرى العمل منهم بذلك على سبيل الالتزام والدوام حتى أن بعض العوام اعتقدوا أن الدعاء بعد السنن والنوافل باجتماع الإمام والمأمومين ضروري واجب…ومن لم يرض بذلك يعزلونه عن الإمامة ويطعنونه، و لا يصلون خلف من لا يصنع بمثل صنيعهم، وأيم الله! إن هذا أمر محدث في الدين.
2. سنن أبي داود، باب ركعتي المغرب، أين تصليان، الرقم: 1301:
عن سعيد بن جبير عن ابن عباس قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم، يطيل القراءة في الركعتين بعد المغرب حتى يتفرق أهل المسجد.
3. معارف السنن، بيان الأحاديث الواردة في الدعاء بعد الصلاة وحكمها 3 /124:
ثم إن ما راج في كثير من بلاد الهند الجنوبية الدعاء بكيفية مخصوصة بعد الرواتب: يستقبل الإمام المقتدين، ويدعون رافعي أيديهم، ثم ينادي الإمام بصوت حال: الفاتحة، فيقرأ هو والمقتديون الفاتحة، ثم يصلون على النبي ﷺ وبعضهم يتفنن فيه فيقول: إلى روح النبي الكريم ﷺ الفاتحة، ويواظبون على هذا طول أعمارهم في جميع صلواتهم، ويلتزمونه التزام واجب، وينكرون على تحقيق معنى الإنصراف عن اليمين واليسار بعد الصلاة الإمام وماموم لا يفعل ذلك، وربما يفضى بهم الإنكار إلى خصام شديد وجدال قبيح، بل يؤدي إلى قبائح وفظائع من الجهالات الفاحشة، ففي مثل هذه يقال إنه بدعة تضمنت بدعات كثيرة، لا أرى لمثل هذا وجهة من السنة.
واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی
فتوی نمبر152
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-11-19
All Categories
- اجارہ کے مسائل (24)
- اذان کے مسائل (20)
- اعتقادی مسائل (36)
- اعتکاف کے مسائل (18)
- امانت کے مسائل (16)
- پاکی ناپاکی کےمسائل (152)
- حج کے مسائل (33)
- حدود کے مسائل (19)
- حظر واباحت کے مسائل (102)
- خرید وفروخت کے مسائل (71)
- خلع کے مسائل (16)
- دعوی کے مسائل (19)
- ذبائح اور شکار کے مسائل (17)
- رضاعت کے مسائل (17)
- روزے مسائل (44)
- زکوٰۃ کے مسائل (87)
- ضمان کے مسائل (17)
- طلاق کے مسائل (76)
- عمرہ کے مسائل (17)
- قربانی کے مسائل (18)
- قرض کے مسائل (24)
- قسم اور منت کے مسائل (25)
- قمار اور ربوا کے مسائل (20)
- كتاب الكراهية (51)
- کفارہ کے مسائل (22)
- مشترک کاروبار کے مسائل (17)
- میراث اور وصیت کے مسائل (18)
- نان نفقہ کے مسائل (19)
- نکاح کے مسائل (82)
- نماز کے مسائل (154)
- ہبہ کے مسائل (20)
- وقف کے مسائل (29)
- وکالت کے مسائل (20)