Notice: Function _load_textdomain_just_in_time was called incorrectly. Translation loading for the paroti domain was triggered too early. This is usually an indicator for some code in the plugin or theme running too early. Translations should be loaded at the init action or later. Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 6.7.0.) in /home/darulift/public_html/wp-includes/functions.php on line 6121
کرایہ دار سے ایڈوانس یا پگڑی کے طور پر رقم لینا: - Darul Ifta Mardan
  • muftisaniihsan@google.com
  • 03118160190
0
Your Cart
No products in the cart.

کرایہ دار سے ایڈوانس یا پگڑی کے طور پر رقم لینا:

سوال:
   ہمارے مردان بازار میں جب کوئی شخص کوئی دکان، کرایہ پر لینا چاہتاہے، تو دکان کا کرایہ 30 ہزار یا 40 ہزار ہوتا ہے اور مالک دکان ایڈوانس، پیشگی 10 لاکھ مانگتا ہے، اس شرط کے ساتھ کہ وہ مالک دکان یہ دس 10 لاکھ  پیشگی استعمال کرے گا، لہذا پوچھنا یہ ہے کہ یہ ایڈوانس دینا کیسا ہے، اور اس کا استعمال مالک دکان کے لیے کیسا ہے؟
جواب:
   پیشگی رقم اگر پگڑی کے طور پر مانگی گئی ہے، تو چونکہ مروجہ پگڑی کی رقم قبضہ کے بدلہ میں لی جاتی ہے، اس لیے یہ رشوت کے حکم میں ہونے کی وجہ سے حرام ہے، تاہم اگر یہ رقم سیکورٹی کے طور پرمانگی گئی ہے، كہ کرایہ دار کے ذمہ ماہانہ کرایہ یا بجلی کے بلز جمع ہونے یا کرایہ دار کا دکان کو نقصان پہنچانے کی صورت میں اس پیشگی رقم سے اس کا تدارک ہوسکے، تو یہ رقم (ایڈوانس ) لینا درست ہے بشرطیکہ اس کی وجہ سے کرایہ میں کمی نہ کی جائے اور یہ رقم مالک دکان کے پاس بطور امانت ہوگی، اور اس کا اصل مالک کرایہ دار ہی ہوگا اور آخر میں اجارہ داری ختم ہونے پر اس کو واپس کرنا ہوگا، البتہ اگر مالک دکان نے اس رقم کو استعمال کرلیا، جس کی عرفا اجازت بھی ہوتی ہے، تو یہ رقم اس کے ذمہ قرض ہو جائے گی، جو کہ بعد میں اصل مالک کو واپس کرنا ضروری ہوگا۔

حوالہ جات:
1. الفتاوى التا تارخانية، 56/16:
   المودع إذا خلط الوديعة بماله أو بوديعة أخرى بحيث لا يتميز ضمن.
2. رد المحتار لابن عابدين الشامي، كتاب البيوع، مطلب في بيع الجامكية 4/ 518:
      (قوله: لا يجوز الاعتياض إلخ) لأن الاعتياض عن مجرد الحق باطل إلا إذا فوت حقا مؤكدا، فإنه يلحق بتفويت حقيقة الملك في حق الضمان كحق المرتهن.
3. البحوث في قضايا فقهية معاصرة لمحمد تقي عثماني، البحث الثالث، بيع حق المجردة 1/ 108 :
   تحقق مما ذكرنا أن بدل الخلو المتعارف الذي يأخذه المؤجر من مستأجره لا يجوز، ولا ينطبق هذا المبلغ المأخوذ على قاعدة من القواعد الشرعىة، وليس ذلك إلارشوة حراما.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:720
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-22

image_pdfimage_printپرنٹ کریں