مسجد کی زائد اشیاء دوسری مسجد یا ذاتی استعمال میں لانا کیسا ہے؟:
سوال:
کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ مسجد کی زائد از ضرورت الماری مدرسہ یا ذاتی ضرورت کے لیے استعمال کرسکتے ہیں؟
جواب:
مسجد کی وہ اشیاء جو ضرورت سے زائد ہوں اور مسجد کے کام نہ آتے ہوں، ان چیزوں کو ذاتی استعمال میں لانا جائز نہیں، بلکہ مسجد کی کمیٹی یا متولی مسجد کو چاہیے کہ ان اشیاء کو فروخت کرکے ان کی قیمت مسجد کی دوسری ضروریات میں استعمال کرے۔
حوالہ جات:
1. البحر الرائق لابن نجيم، كتاب الوقف، فصل اختص المسجد بأحكام تخالف أحكام مطلق الوقف 5/ 272:
وأما الحصیر، والقناديل، فالصحيح من مذهب أبي يوسف أنه لا يعود إلى ملك متخذه بل يحول إلى مسجد آخر، أو يبيعه قيم المسجد للمسجد.
2. الميحط البرهاني ابن ماجه،كتاب الوقف، فصل في المساجد وهو أنواع 6/ 99:
والصحيح من مذهب أبي يوسف في فصل الحصير، أنه لا يعود إلى ملك صاحبه بخراب المسجد، بل يحول إلى آخر، ويبيعه قيم المسجد للمسجد.
واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی
فتوی نمبر:694
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-16
All Categories
- اجارہ کے مسائل (24)
- اذان کے مسائل (20)
- اعتقادی مسائل (36)
- اعتکاف کے مسائل (18)
- امانت کے مسائل (16)
- پاکی ناپاکی کےمسائل (152)
- حج کے مسائل (33)
- حدود کے مسائل (19)
- حظر واباحت کے مسائل (102)
- خرید وفروخت کے مسائل (71)
- خلع کے مسائل (16)
- دعوی کے مسائل (19)
- ذبائح اور شکار کے مسائل (17)
- رضاعت کے مسائل (17)
- روزے مسائل (44)
- زکوٰۃ کے مسائل (87)
- ضمان کے مسائل (17)
- طلاق کے مسائل (76)
- عمرہ کے مسائل (17)
- قربانی کے مسائل (18)
- قرض کے مسائل (24)
- قسم اور منت کے مسائل (25)
- قمار اور ربوا کے مسائل (20)
- كتاب الكراهية (51)
- کفارہ کے مسائل (22)
- مشترک کاروبار کے مسائل (17)
- میراث اور وصیت کے مسائل (18)
- نان نفقہ کے مسائل (19)
- نکاح کے مسائل (82)
- نماز کے مسائل (154)
- ہبہ کے مسائل (20)
- وقف کے مسائل (29)
- وکالت کے مسائل (20)