مارکیٹ سے ملنے والی آمدنی پر زکوۃ کا حکم:
سوال:
ہماری ایک مارکیٹ ہے، اس سے بطورِ کرایہ جو آمدنی ملتی ہے کیا اس میں زکوۃ ہے یا نہیں، اگر ہے تو کیا طریقہ ہوگا؟
جواب:
مارکیٹ سے بطورِ کرایہ جو آمدنی آپ کو ملتی ہے، اگر وہ بقدرِ نصاب ہو، یا دیگر قابلِ زکوۃ اموال کے ساتھ ملا کر نصاب تک پہنچتی ہو، تو سال گزرنے کے بعد ان اموال کے مجموعہ سے چالیسواں حصہ یعنی ڈھائی فیصد زکوٰۃ دینا ضروری ہوگا ورنہ زکواۃ لازم نہیں۔
حوالہ جات:
1. الفتاوى الهندية للجنة العلماء، مسائل شتي في الزكاة 1/ 180:
ولو اشترى قدورا من صفر يمسكها ويؤاجرها، لا تجب فيها الزكاة، كما لا تجب في بيوت الغلة.
2. البحر الرائق لابن نجيم، كتاب الزكوة، باب شروط وجوب الزكوة 2/ 224:
ولو آجر عبده أو داره بنصاب إن لم يكونا للتجارة، لا تجب ما لم يحل الحول بعد القبض في قوله، وإن كان للتجارة، كان حكمه كالقوي؛ لأن أجرة مال التجارة كثمن مال التجارة في صحيح الرواية اهـ.
واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی
فتوی نمبر:666
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-16
All Categories
- اجارہ کے مسائل (24)
- اذان کے مسائل (20)
- اعتقادی مسائل (36)
- اعتکاف کے مسائل (18)
- امانت کے مسائل (16)
- پاکی ناپاکی کےمسائل (152)
- حج کے مسائل (33)
- حدود کے مسائل (19)
- حظر واباحت کے مسائل (102)
- خرید وفروخت کے مسائل (71)
- خلع کے مسائل (16)
- دعوی کے مسائل (19)
- ذبائح اور شکار کے مسائل (17)
- رضاعت کے مسائل (17)
- روزے مسائل (44)
- زکوٰۃ کے مسائل (87)
- ضمان کے مسائل (17)
- طلاق کے مسائل (76)
- عمرہ کے مسائل (17)
- قربانی کے مسائل (18)
- قرض کے مسائل (24)
- قسم اور منت کے مسائل (25)
- قمار اور ربوا کے مسائل (20)
- كتاب الكراهية (51)
- کفارہ کے مسائل (22)
- مشترک کاروبار کے مسائل (17)
- میراث اور وصیت کے مسائل (18)
- نان نفقہ کے مسائل (19)
- نکاح کے مسائل (82)
- نماز کے مسائل (154)
- ہبہ کے مسائل (20)
- وقف کے مسائل (29)
- وکالت کے مسائل (20)