کرسی پر بیٹھ کر کھانے کے لیے میز اور ٹیبل استعمال کرنا:
سوال:
کرسی پر بیٹھ کر میز پر کھانا کھانا خلافِ سنت ہے یا نہیں؟ اس طرح چارپائی کا کیا حکم ہے۔
جواب:
اگرچہ نبی کریم ﷺ کی عادت شریفہ یہی تھی کہ آپ ﷺ زمین پر بیٹھ کر کھانا تناول فرماتے تھے لیکن چونکہ آپ ﷺکا اس طرح کھانا کھانا بطورعادت کے تھا، بطور عبادت کے نہیں تھا، اسی وجہ سے آپ ﷺ نے باقاعدہ نہ اس کا حکم فرمایا اور نہ اس کے خلاف کرنے والے پر کوئی نکیر فرمائی، لہذا میز کرسی پر بیٹھ کر کھانا کھانا جائز ہے، نیز ایک زمانہ میں یہ کفار کے ساتھ مخصوص تھا، جس کی وجہ سے اس وقت کے علماء نے اس کے استعمال کو ممنوع قرار دیا تھا، لیکن چونکہ اس کا استعمال بالکل عام ہوچکا ہے اور کفار کے ساتھ مخصوص نہ رہا، اس لیے اب اس ممانعت کی بھی وجہ نہ رہی۔ تاہم آپ ﷺ کی عادت شریفہ کی بنیاد پر کوئی آپ ﷺ کی اتباع میں زمین پر بیٹھ کر کھانا کھائے تو موجب ثواب اور باعث برکت ہے۔
حوالہ جات:
1. صحيح البخاري، كتاب الأطعمة، باب الخبز المرقق والأكل على الخوان والسفرة، الرقم: 5386:
عن قتادة، عن أنس رضي الله عنه، قال: «ما علمت النبي صلى الله عليه وسلم أكل على سكرجة قط، ولا خبز له مرقق قط، ولا أكل على خوان قط» قيل لقتادة: فعلام كانوا يأكلون؟ قال: «على السفر».
2. مرقاة المفاتيح، كتاب الأطعمة، الرقم: 4169:
قال التوربشتي: الخوان الذي يؤكل عليه معرب، والأكل عليه لم يزل من دأب المترفين وصنيع الجبارين لئلا يفتقروا إلى التطاطؤ عند الأكل.
3. الترغيب والترهيب لزكي الدين المنذري،كتاب الطعام وغيره، باب الترغيب في غسل اليد قبل الطعام وبعده 3/ 152:
كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا أتى بطعام وضعه على الأرض، فهذا أقرب للتواضع.
4. الكوكب الدري لرشيد أحمد الكنكوهي، أبواب الأطعمة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم 3/ 4:
والحاصل أن الأكل عليه بحسب نفس ذاته لا يربو على ترك الأولوية، فأما إذا لزم فيه التشبه باليهود أو النصارى كما هو في ديارنا كان مكروهًا تحريميًا، وأما إذا لم يكن على دأبهم فلا يخلو أيضًا عن تفويت منافع…وقال المناوي: يعتاد المتكبرون من العجم الأكل عليه؛ لئلا تنخفض رؤوسهم فالأكل عليه بدعة، لكنه جائز إن خلا عن قصد التكبر، انتهى.
5. الموسوعة الفقهية الكويتية، حرف السين، سنة 25/ 265:
فالسنة عند الحنفية بالمعنى الفقهي نوعان:
سنة الهدى: وهي ما تكون إقامتها تكميلا للدين، وتتعلق بتركها كراهة أو إساءة، كصلاة الجماعة، والأذان، والإقامة، ونحوها، وذلك لأن النبي صلى الله عليه وسلم واظب عليها على سبيل العبادة، وتسمى أيضا السنة المؤكدة.
سنن الزوائد: وهي التي لا يتعلق بتركها كراهة ولا إساءة؛ لأن النبي صلى الله عليه وسلم فعلها على سبيل العادة، فإقامتها حسنة، كسير النبي صلى الله عليه وسلم في لباسه وقيامه، وقعوده وأكله، ونحو ذلك.
.
واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی
فتوی نمبر:609
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-12
All Categories
- اجارہ کے مسائل (24)
- اذان کے مسائل (20)
- اعتقادی مسائل (36)
- اعتکاف کے مسائل (18)
- امانت کے مسائل (16)
- پاکی ناپاکی کےمسائل (152)
- حج کے مسائل (33)
- حدود کے مسائل (19)
- حظر واباحت کے مسائل (102)
- خرید وفروخت کے مسائل (71)
- خلع کے مسائل (16)
- دعوی کے مسائل (19)
- ذبائح اور شکار کے مسائل (17)
- رضاعت کے مسائل (17)
- روزے مسائل (44)
- زکوٰۃ کے مسائل (87)
- ضمان کے مسائل (17)
- طلاق کے مسائل (76)
- عمرہ کے مسائل (17)
- قربانی کے مسائل (18)
- قرض کے مسائل (24)
- قسم اور منت کے مسائل (25)
- قمار اور ربوا کے مسائل (20)
- كتاب الكراهية (51)
- کفارہ کے مسائل (22)
- مشترک کاروبار کے مسائل (17)
- میراث اور وصیت کے مسائل (18)
- نان نفقہ کے مسائل (19)
- نکاح کے مسائل (82)
- نماز کے مسائل (154)
- ہبہ کے مسائل (20)
- وقف کے مسائل (29)
- وکالت کے مسائل (20)