مال حرام والے کے ہاتھ کوئی چیز بیچنا یا اس کے ساتھ مزدوری کرنا:
سوال:
ایک آدمی سودی کاروبار کرتا ہے، اس کے ہاتھ کوئی خرید وفروخت کرنا، جبکہ وہ قیمت مالِ حرام سے دے رہا ہو، نیز اس کے ساتھ مزدوری کرنا شرعا کیسا ہے؟
جواب:
جس شخص کا اکثر یا سارا حرام ہو، اس کے ہاتھ کوئی چیز بیچنا جائز ہے، مگر مال حرام سے قیمت وصول کرنا جائز نہیں، بلکہ خریدار سے حلال مال کا مطالبہ کرنا ضروری ہے، تاہم اگر اس نے مال حرام کے بدلے کوئی چیز خریدی، لیکن بعد میں حلال مال سے ادائیگی کردی یا خریدتے وقت مال حرام اس کے پاس موجود نہیں تھا اورمطلقا اس نے کوئی چیز خرید لی اور بعد میں مال حرام سے ادائیگی کردی یا معاملہ کے وقت بائع کو علم نہیں تھا اور بعد میں مشتری نے مال حرام سے ادائیگی کردی تو تینوں صورتوں میں امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کے قول کے مطابق یہ معاملہ درست ہے اور وصول شدہ پیسوں کا استعمال جائز ہے، لیکن بہتر یہی ہے کہ اس قسم کے مال سے بھی اجتناب کیا جائے۔
ایسے ہی جس شخص کا سارا یا اکثر مال حرام ہو، اس کے ہاں مزدوری کرنا جائز ہے، لیکن اجرت لیتے وقت اگر اس نے صراحتا یہ نہ کہا ہو کہ یہ مال حرام ہے تو اسے لے کر استعمال کی گنجائش ہے، تاہم جس آدمی کے بارے میں پہلے سے معلوم ہو کہ اس کا اکثر مال حرام ہے تو اس کے ہاں مزدوری کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔
حوالہ جات:
1. فقه البیوع للشیخ المفتي تقي العثماني، خلاصة البحث 2/ 1052:
المال المغصوب وما في حكمه مثل ما قبضه الإنسان رشوة أو سرقة أو بعقد باطل شرعاً، لا يحل له الانتفاع به، ولا بيعه وهبته، ولا يجوز لأحد يعلم ذلك أن يأخذه منه شراء أو هبة أو إرثاً.
2. أيضا 2/ 1054:
إن لم يُعرف في المخلوط من الحلال والحرام أنهما متميزان أو مختلطان، وكم حصة الحلال في المخلوط؟ فالأولى التنزه، ولكن يجوز التعامل بذلك المخلوط إذا غلب على الظن أن المتعامل به لا يتجاوز قدر الحلال.
3. رد المحتار، مطلب: اذا اكتسب حراما إلخ 244/4:
(قوله اكتسب حراما إلخ) توضيح المسألة ما في التتارخانية حيث قال: رجل اكتسب مالا من حرام ثم اشترى فهذا على خمسة أوجه: أما إن دفع تلك الدراهم إلى البائع أولا ثم اشترى منه بها أو اشترى قبل الدفع بها ودفعها، أو اشترى قبل الدفع بها ودفع غيرها، أو اشترى مطلقا ودفع تلك الدراهم، أو اشترى بدراهم أخر ودفع تلك الدراهم. قال أبو نصر: يطيب له ولا يجب عليه أن يتصدق إلا في الوجه الأول، وإليه ذهب الفقيه أبو الليث، لكن هذا خلاف ظاهر الرواية فإنه نص في الجامع الصغير: إذا غصب ألفا فاشترى بها جارية وباعها بألفين تصدق بالربح. وقال الكرخي: في الوجه الأول والثاني لا يطيب، وفي الثلاث الأخيرة يطيب، وقال أبو بكر: لا يطيب في الكل، لكن الفتوى الآن على قول الكرخي دفعا للحرج عن الناس اهـ. وفي الولوالجية: وقال بعضهم: لا يطيب في الوجوه كلها وهو المختار، ولكن الفتوى اليوم على قول الكرخي دفعا للحرج لكثرة الحرام اهـ
واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی
فتوی نمبر:602
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-12
All Categories
- اجارہ کے مسائل (24)
- اذان کے مسائل (20)
- اعتقادی مسائل (36)
- اعتکاف کے مسائل (18)
- امانت کے مسائل (16)
- پاکی ناپاکی کےمسائل (152)
- حج کے مسائل (33)
- حدود کے مسائل (19)
- حظر واباحت کے مسائل (102)
- خرید وفروخت کے مسائل (71)
- خلع کے مسائل (16)
- دعوی کے مسائل (19)
- ذبائح اور شکار کے مسائل (17)
- رضاعت کے مسائل (17)
- روزے مسائل (44)
- زکوٰۃ کے مسائل (87)
- ضمان کے مسائل (17)
- طلاق کے مسائل (76)
- عمرہ کے مسائل (17)
- قربانی کے مسائل (18)
- قرض کے مسائل (24)
- قسم اور منت کے مسائل (25)
- قمار اور ربوا کے مسائل (20)
- كتاب الكراهية (51)
- کفارہ کے مسائل (22)
- مشترک کاروبار کے مسائل (17)
- میراث اور وصیت کے مسائل (18)
- نان نفقہ کے مسائل (19)
- نکاح کے مسائل (82)
- نماز کے مسائل (154)
- ہبہ کے مسائل (20)
- وقف کے مسائل (29)
- وکالت کے مسائل (20)