@123تجارتی مارکہ(Trade Mark)کی خرید وفروخت کی شرعی حیثیت
سوال:
آج کل تجارتی مارکہ کی خریدو فروخت شروع ہوئی ہے، کیا تو یہ جائز ہے؟
جواب:
واضح رہے کہ تجارتی مارکہ (Trade Mark) آج کل تاجروں کے ہاں ایک قیمتی مال بن چکا ہے، کیونکہ کمپنی والے یا کوئی ادارہ جو مال تیار کرتے ہیں، اس پر اپنا ایک مارکہ لگاتے ہیں، جو اس کمپنی کی پہچان ہوتی ہے اور حکومتی سطح پر اس کی رجسٹریشن ہوتی ہے، جس میں کافی محنت لگتی ہے اور پھر کسی دوسرے شخص یا کمپنی کے لیے اس مارکہ کا استعمال قانونا جرم ہوتا ہے، لہذا اگر کوئی مارکہ ایسا ہو جو حکومت کے ساتھ رجسٹرڈ ہو، تو اس کی خرید و فروخت جائز ہے، لیکن یہ ضروری ہے کہ خریدار اعلان کرے کہ اب اس چیز کے بنانے والے ہم ہیں، اور اس کے ساتھ ساتھ پہلے والے معیار کو بھی بر قرار رکھے اور لوگوں کو نام سے دھوکہ دے کر غیر معیاری چیز فروخت نہ کرے۔
حوالہ جات:
لما في فقه البيوع محمد تقي العثماني،المبحث الثالث في أحكام المبيع والثمن، الشرط الأول مالية البيع 1/ 276:
ويبدو لهذ ا العبد الضعيف عفاالله عنه أنّ حق الاسم التجاري؛ والعلامات التجارية، وان كان في الأصل حقا مجردا غير ثابت في عين قائمة، ولكنه بعد التسجيل الحكوميّ، الّذي يتطلب جُهدا كبيرا وبذل أموال جمة، والذي تحصل له بعد ذلك صفة قانونية تمثلها شهادت مكتوبة بيد الحامل، و في دفاتر الحكومة، أشبه الحق المستقر في العين، والتحق في عرف التجار بالأعيان، فينبغي أن يجور الاعتياض عنه على وجه البيع أيضا، ولاشك أن للعرف العام مجالا في إدراج بعض الأشياء في الأعيان لأالمالية، كما يقول: ابن عابدين رحمه الله تثبت بتمول الناس، وهذا مثل القوة الكهر بائية، أو الغاز التى لم تكن في الأزمان السالفة تُعد من الأموال؛ والأعيان المتقوّمة، لأنها ليست عينا قائمة بذاتها، ولم يكن إحرازُها في الوسعة البشرية، ولكنها صارت الآن من أعزّ الأموال المتقومة التى لاشبهة في جوازها بيعها وشراءها، وذلك لنفعها البالغ ولإمكان إحرارها ولتعارف الناس بماليتها وتقومها، فكذلك الاسم التجاري أو العلامة التجارية أصبحت بعد التسجيل الحكومىّ ذات قيمة بالغة في عرف التجّار، ويصدق عليها أنها تحرز بإحراز شهادتها المكتوبة من قبل الحكومة، وإحراز كل شيء بما يلائمة، ويصدق عليها أيضا أنها تدخر لوقت الحاجة، فالعناصر اللازمة التى تمنع الشيء صفة المالية متوفرة فيها، سوى أنها ليست عينا قائمة بنفسها، فيبدو أنه لامانع شرعا من أن يسلك بها مسلك الأموال في جواز بيعها وشراءها.
و في الدر المختار للحصكفي، كتاب البيوع، مطلب في بيع الجامكية 4/ 518:
لا يجوز الاعتياض عن الحقوق المجردة كحق الشفعة، وعلى هذا لا يجوز الاعتياض عن الوظائف بالأوقاف، وفيها في آخر بحث تعارض العرف مع اللغة، المذهب عدم اعتبار العرف الخاص لكن أفتى كثير باعتباره.
و فيه أيضا، كتاب البيوع، مطلب في تعريف المال والملك والمتقوم 4/ 501:
والمالية تثبت بتمول الناس كافة أو بعضهم والتقوم يثبت بها.
واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی
فتوی نمبر:614
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-12
All Categories
- اجارہ کے مسائل (24)
- اذان کے مسائل (20)
- اعتقادی مسائل (36)
- اعتکاف کے مسائل (18)
- امانت کے مسائل (16)
- پاکی ناپاکی کےمسائل (152)
- حج کے مسائل (33)
- حدود کے مسائل (19)
- حظر واباحت کے مسائل (102)
- خرید وفروخت کے مسائل (71)
- خلع کے مسائل (16)
- دعوی کے مسائل (19)
- ذبائح اور شکار کے مسائل (17)
- رضاعت کے مسائل (17)
- روزے مسائل (44)
- زکوٰۃ کے مسائل (87)
- ضمان کے مسائل (17)
- طلاق کے مسائل (76)
- عمرہ کے مسائل (17)
- قربانی کے مسائل (18)
- قرض کے مسائل (24)
- قسم اور منت کے مسائل (25)
- قمار اور ربوا کے مسائل (20)
- كتاب الكراهية (51)
- کفارہ کے مسائل (22)
- مشترک کاروبار کے مسائل (17)
- میراث اور وصیت کے مسائل (18)
- نان نفقہ کے مسائل (19)
- نکاح کے مسائل (82)
- نماز کے مسائل (154)
- ہبہ کے مسائل (20)
- وقف کے مسائل (29)
- وکالت کے مسائل (20)