@123غیر مسلم عورت کے قبول اسلام کے بعد نکاح کی شرعی حیثیت
سوال:
اگر کوئی کافر عورت مسلمان ہو جائے اور کافر شوہر سے جدا ہو جائے تو کسی مسلمان سے کب شادی کر سکتی ہے؟
جواب:
واضح رہے اگر کوئی عورت مسلمان ہو جائے اور شوہر مسلمان نہ ہوا ہو، تو میاں بیوی اگر دارالاسلام میں ہوں، قاضی شوہر پر اسلام پیش کرے گا اگر وہ اسلام قبول کرنے سے انکار کرے، تو قاضی دونوں کے درمیان تفریق کر دے گا، تفریق کے بعد عورت عدت (تین ماہواریاں) گزارنے کے بعد کسی مسلمان مرد سے نکاح کرسکتی ہے اور اگر دونوں دارالحرب میں ہوں یا ایسے اسلامی ملک میں ہوں جہاں شرعی قانون کے مطابق فیصلے نہ کیے جاتے ہوں، تو عورت تین ماہواریاں گزار کر اپنے کافر شوہر کے نکاح سے نکل جائے گی، یعنی اگر شوہر نے تین حیض گزرنے تک اسلام قبول نہیں کیا تو یہ عورت اپنے کافر شوہر کے نکاح سے خود بخود نکل جائے گی، اس کے بعد کسی مسلمان مرد سے نکاح کر سکتی ہے۔
حوالہ جات:
لما في الدر المختار للحصكفي، كتاب النكاح، باب نكاح الكافر3/ 191:
(ولو) (أسلم أحدهما) أي أحد المجوسيين أو امرأة الكتابي (ثمة) أي: في دار الحرب وملحق بها كالبحر الملح (لم تبن حتى تحيض ثلاثا) أو تمضي ثلاثة أشهر (قبل إسلام الآخر) إقامة لشرط الفرقة مقام السبب، وليست بعدة لدخول غير المدخول بها.
وفي البحر الرائق لابن نجيم، كتاب النكاح، باب نكاح الكافر 3/ 370:
(ولو أسلم أحدهما ثمة لم تبن حتى تحيض ثلاثا فإذا حاضت ثلاثا بانت) لان الاسلام ليس سببا للفرقة، والعرض على الاسلام متعذر؛ لقصور الولاية ولا بد من الفرقة دفعا للفساد، فأقمنا شرطها، وهو مضي الحيض مقام السبب.
وفي فتح القدير لابن الهمام، كتاب النكاح، باب نكاح أهل مشرك 3/ 427:
(وإذا خرجت المرأة إلينا مهاجرة جاز لها أن تتزوج ولا عدة عليها) عند أبي حنيفة. وقالا: عليها العدة؛ لأن الفرقة وقعت بعد الدخول في دار الإسلام فيلزمها حكم الإسلام.
وفي تبيين الحقائق عثمان بن علي الزيلعي الحنفي، كتاب النكاح، باب نكاح الكافر 2/ 174:
(وإذا أسلم أحد الزوجين عرض الإسلام على الآخر فإن أسلم وإلا فرق بينهما) وهذا الكلام على إطلاقه يستقيم في المجوسيين؛ لأنه بإسلام أحدهما أيهما كان يفرق بينهما بعد الآباء، وأما إذا كانا كتابيين فإن أسلمت هي فكذلك وإن أسلم هو فلا يتعرض لها لجواز تزوجها للمسلم ابتداء فلا حاجة إلى العرض … فيؤجل إلى انقضاء ثلاث حيض كما في الطلاق حيث ينقطع قبل الدخول بنفسه وبعده لا ينقطع حتى تنقضي عدتها.
واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی
فتوی نمبر:586
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-10
All Categories
- اجارہ کے مسائل (24)
- اذان کے مسائل (20)
- اعتقادی مسائل (36)
- اعتکاف کے مسائل (18)
- امانت کے مسائل (16)
- پاکی ناپاکی کےمسائل (152)
- حج کے مسائل (33)
- حدود کے مسائل (19)
- حظر واباحت کے مسائل (102)
- خرید وفروخت کے مسائل (71)
- خلع کے مسائل (16)
- دعوی کے مسائل (19)
- ذبائح اور شکار کے مسائل (17)
- رضاعت کے مسائل (17)
- روزے مسائل (44)
- زکوٰۃ کے مسائل (87)
- ضمان کے مسائل (17)
- طلاق کے مسائل (76)
- عمرہ کے مسائل (17)
- قربانی کے مسائل (18)
- قرض کے مسائل (24)
- قسم اور منت کے مسائل (25)
- قمار اور ربوا کے مسائل (20)
- كتاب الكراهية (51)
- کفارہ کے مسائل (22)
- مشترک کاروبار کے مسائل (17)
- میراث اور وصیت کے مسائل (18)
- نان نفقہ کے مسائل (19)
- نکاح کے مسائل (82)
- نماز کے مسائل (154)
- ہبہ کے مسائل (20)
- وقف کے مسائل (29)
- وکالت کے مسائل (20)