بیماری میں قضا شدہ کن نمازوں کا کتنا فدیہ دینا ضروری ہے؟
سوال:
ایک آدمی فوت ہوچکا ہے جو کہ چار ماہ بیمار تھا، پہلے ایک ماہ میں تو وہ بالکل بے ہوش رہا اور باقی تین ماہ میں ایسا تھا کہ بات بھی نہ کرسکتا تھا، خوراک پائپ کے ذریعے دیا جاتا تھا، اور بول وبراز کا بھی اس کو کچھ پتہ نہ چلتا تھا، لیکن بغور دیکھنے سے لوگوں کو پہچان سکتا تھا، تو کیا اس دوران اس پر نماز فرض تھی یا نہیں؟ اگر فرض تھی تو فدیہ کس طرح ادا کیا جائے؟
کیا یہ فدیہ مدرسہ یا مسجد میں دے سکتا ہے یا نہیں؟ کیا فقیر یا غنی کو فدیہ دینے میں کوئی فرق ہے یا نہیں؟اور فدیہ کی رقم سے کوئی رفاہی کام کیا جاسکتا ہے، یا کسی کو مالک بنانا اس میں شرط ہے؟
جواب:
مذکورہ شخص کو ایک ماہ کی نمازیں بوجہ مکمل بے ہوش ہونے کے معاف ہے، البتہ باقی تین مہینوں میں اگر اس شخص کی حالت ایسی تھی کہ سر کے اشارے سے بھی نماز پڑھنے کی قدرت نہیں رکھتا تھا، تو ان مہینوں کے نمازیں اس کے ذمہ لازم نہیں تھیں، لہذا ان کا فدیہ ادا کرنا بھی اس کے ذمہ لازم نہیں ہے، اور اگر اس کی حالت ایسی تھی کہ سر کے اشارے سے نماز پڑھنے کی قدرت رکھتا تھا تو پھر ان مہینوں کی نمازوں کی قضا اور مرتے وقت وصیت کرنا اس کے ذمہ واجب ہے، لہذا اگر مرحوم نے اپنی نمازوں کے فدیہ دینے کی وصیت کی ہو، تو اس کے مال کی تین تہائی حصہ سے فدیہ دینا واجب ہے، اور فدیہ ہر دن کے چھ نمازوں میں سے ہر ایک نماز کا ادا کرنا ضروری ہے (یعنی پانچ فرض نمازیں اور ایک وتر کی نماز)
فدیہ کی مقدار پونے دو کلو گندم یا اس کی قیمت ہے اور جو، کجھور اور کشمش کے اعتبار سے ساڑھے تین کلو یا اس کی قیمت ہے، لیکن اگر مرنے سے پہلےاس نے وصیت نہ کی ہو تو ورثاء کی ذمے فدیہ دینا واجب نہیں، البتہ اگر تمام ورثاء بالغ ہوں اور اپنی خوشی سے دے دیں، تو امید ہے کہ مرحوم کا ذمہ فارغ ہو جائے گا، اور فدیہ کسی مستحق زکوۃ کو دینا ضروری ہے، مدرسہ یا مسجد یا کسی رفاہی کام میں خرچ کرنے سے پہلے کسی کو اس کا مالک بنانا ضروری ہے، مالک بنائے بغیر براہ راست ان کاموں میں خرچ کرنے سے زکوۃ ادا نہ ہوگی۔
حوالہ جات:
1. الدر المختار للحصكفي مع رد المحتار،كتاب الصلاة، باب صلاة المريض 2/687:
(وإن تعذر الإيماء) برأسه (وكثرت الفوائت) بأن زادت على يوم وليلة (سقط القضاء عنه) وإن كان يفهم في ظاهر الرواية (وعليه الفتوى).
قال ابن عابدين تحت قوله(قوله بأن زادت على يوم وليلة) أما لو كانت يوما وليلة أو أقل وهو يعقل، فلا تسقط بل تقضى اتفاقا، وهذا إذا صح، فلو مات، ولم يقدر على الصلاة، لم يلزمه القضاء، حتى لا يلزمه الإيصاء بها كالمسافر إذا أفطر، ومات قبل الإقامة كما في الزيلعي. قال في البحر: وينبغي أن يقال محمله ما إذا لم يقدر في مرضه على الإيماء بالرأس، أما إن قدر عليه بعد عجزه فإنه يلزمه القضاء.
2.البحر الرائق لابن نجيم، كتاب الصلاة، باب قضاء الفوائت 2/160:
إذا مات الرجل وعليه صلوات فائتة، وأوصى بأن يعطى كفارة صلاته يعطى لكل صلاة نصف صاع من بر، وللوتر نصف صاع.
3. الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب الصلاة، باب الحادي عشر في قضاء الفوائت 1/125:
إذا مات الرجل عليه صلوات فائتة، وأوصى بأن تعطى كفارة صلاته يعطى لكل صلاة نصف صاع من بر، وللوتر نصف صاع.
واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی
فتوی نمبر:562
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-08
All Categories
- اجارہ کے مسائل (24)
- اذان کے مسائل (20)
- اعتقادی مسائل (36)
- اعتکاف کے مسائل (18)
- امانت کے مسائل (16)
- پاکی ناپاکی کےمسائل (152)
- حج کے مسائل (33)
- حدود کے مسائل (19)
- حظر واباحت کے مسائل (102)
- خرید وفروخت کے مسائل (71)
- خلع کے مسائل (16)
- دعوی کے مسائل (19)
- ذبائح اور شکار کے مسائل (17)
- رضاعت کے مسائل (17)
- روزے مسائل (44)
- زکوٰۃ کے مسائل (87)
- ضمان کے مسائل (17)
- طلاق کے مسائل (76)
- عمرہ کے مسائل (17)
- قربانی کے مسائل (18)
- قرض کے مسائل (24)
- قسم اور منت کے مسائل (25)
- قمار اور ربوا کے مسائل (20)
- كتاب الكراهية (51)
- کفارہ کے مسائل (22)
- مشترک کاروبار کے مسائل (17)
- میراث اور وصیت کے مسائل (18)
- نان نفقہ کے مسائل (19)
- نکاح کے مسائل (82)
- نماز کے مسائل (154)
- ہبہ کے مسائل (20)
- وقف کے مسائل (29)
- وکالت کے مسائل (20)