@123مدعی پر گواہ اور مدعی علیہ پر قسم کی ایک صورت
سوال:
میرا ذاتی کاروبار جس میں، میں نے (3678720) روپے انویسٹ کیے تھے، جبکہ میرے ماموں نے اس کاروبار میں (5193574) روپے انویسٹ کیے تھے، اس دوران مجھ سے ماموں نے (5384119) روپے دورانِ کاروبار واپس لیے ہیں اور میرے گودام میں فریج، اے سی وغیرہ سامان جس کی مالیت تقریبًا (1761640) روپے ہیں اس پر بھی ماموں نے قبضہ کرلیا تھا تو اس طرح ماموں نے کل (7145759) روپے وصول کرلیے ہیں تو اس طرح ماموں نے (1952185) روپے اضافی وصول کرلیے ہیں اور میں نے اس کاروبار سے مبلغ (2100000) روپے وصول کرلیے ہیں اور تاحال (1578720) روپے اصل زر ثمن میں میرا بقایا ہے اور میرے ماموں نے منافع بھی وصول کرلیا ہےاور الٹا میرا ماموں مجھ پر مبلغ (1500000) روپے کا دعویدار ہے اور ہر دونوں فریقین قسم پر حلفِ قرآن اٹھانے کو تیار ہیں شرعی حکم کے لحاظ سے دونوں فریقین کے لیے کیاحکم ہے ؟
جواب:
مذکورہ صورت میں آپ اپنے ماموں پر رقم وصول کرنے کے دعوی دار ہیں، اور آپ کا ماموں اس بات سے انکاری ہے تو آپ کے ذمہ اپنی بات پر دو عاقل بالغ مردوں کو بطور گواہ پیش کرنا لازم ہے، اگر آپ کے پاس گواہ نہ ہوں تو ماموں کو قسم دی جائے گی، قسم کھانے کی صورت میں فیصلہ اس کے حق میں کیا جائے گا لیکن اگر ماموں قسم کھانے سے انکار کرے تو پھر فیصلہ آپ کے حق میں ہو گا، تاہم اگر ماموں نے جھوٹی قسم کھائی اور اس کے ذریعے اس نے رقم حاصل کرلی تو اس جھوٹے قسم کھانے کی وجہ سے یہ رقم اس کے لیے حلال نہ ہوگی ۔
حوالہ جات:
لما في السنن الكبرى للبيهقي، كتاب الدعوى والبينات، باب: البينة على المدعي , واليمين على المدعى عليه، الرقم: 21201:
عن ابن أبي مليكة، قال: كنت قاضيا لابن الزبير على الطائف , فذكر قصة المرأتين , قال: فكتبت إلى ابن عباس , فكتب ابن عباس رضي الله عنهما أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ” لو يعطى الناس بدعواهم لادعى رجال أموال قوم ودماءهم , ولكن البينة على المدعي , واليمين على من أنكر ” وذكر الحديث.
وفي تبيين الحقائق للزيلعي، كتاب الدعوى، 5/ 317:
(هي إضافة الشيء إلى نفسه حالة المنازعة) أي الدعوى أن يدعو الشيء إلى نفسه في حالة الخصومة وهذا في الشريعة، ولهذا قال عليه الصلاة والسلام: البينة على المدعي واليمين على من أنكر لأن كل واحد من البينة واليمين يحتاج إليه عند إضافة الشيء إلى نفسه.
واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی
فتوی نمبر:535
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-05
All Categories
- اجارہ کے مسائل (24)
- اذان کے مسائل (20)
- اعتقادی مسائل (36)
- اعتکاف کے مسائل (18)
- امانت کے مسائل (16)
- پاکی ناپاکی کےمسائل (152)
- حج کے مسائل (33)
- حدود کے مسائل (19)
- حظر واباحت کے مسائل (102)
- خرید وفروخت کے مسائل (71)
- خلع کے مسائل (16)
- دعوی کے مسائل (19)
- ذبائح اور شکار کے مسائل (17)
- رضاعت کے مسائل (17)
- روزے مسائل (44)
- زکوٰۃ کے مسائل (87)
- ضمان کے مسائل (17)
- طلاق کے مسائل (76)
- عمرہ کے مسائل (17)
- قربانی کے مسائل (18)
- قرض کے مسائل (24)
- قسم اور منت کے مسائل (25)
- قمار اور ربوا کے مسائل (20)
- كتاب الكراهية (51)
- کفارہ کے مسائل (22)
- مشترک کاروبار کے مسائل (17)
- میراث اور وصیت کے مسائل (18)
- نان نفقہ کے مسائل (19)
- نکاح کے مسائل (82)
- نماز کے مسائل (154)
- ہبہ کے مسائل (20)
- وقف کے مسائل (29)
- وکالت کے مسائل (20)