مقروض کوٹال مٹول کی وجہ سے جیل میں ڈالنا کیساہے؟:
سوال:
زید پر جابر کا قرضہ ہے، مگر زید غریب ہے، قرض ادا کرنے سے عاجز ہے، تو جابر اس پر عدالت میں کیس کرکے اس کو جیل میں بند کرا سکتا ہے؟
جواب:
اگر کوئی قرضدار مفلس اور غریب ہے تو اس کو مہلت دینے کی شریعت میں بڑی ترغیب آئی ہے اور اس میں ہر دن کے اعتبار سے صدقہ کا ثواب ملتا ہے، نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے: جو شخص مفلس وتنگ دست کو مہلت دے تو ادائیگی کا دن آنے تک اس کو ہر دن کے بدلے اس کے قرض کے برابر صدقہ کا ثواب ملتا ہے اور پھر جب ادائیگی کا دن آئے اور وہ پھر اسے مہلت دے دے تو اس کو ہر دن کے بدلے اس کے قرض کی دگنی مقدار کے برابر صدقہ کا ثواب ملتا ہے، البتہ ایسا قرض دار جو قرض اتارنے کی قدرت رکھنے کے باوجود ٹال مٹول کرتا ہے تو اس کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: قرض کی ادائیگی پر قدرت کے باوجود وقت پر ادائیگی میں ٹال مٹول کرنا ظلم ہے، اس لیے بلا وجہ قرض کی ادائیگی میں ٹال مٹول سے کام نہیں لینا چاہیے، یہ سخت گناہ ہے۔ لہذا اگر کوئی قدرت کے باوجود قرضہ کی ادائیگی میں ٹال مٹول سے کام لیتا ہے تو اس کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جا سکتی ہے۔
حوالہ جات:
1. مسند أحمد بن حنبل، حديث بريدة الأسلمي، رقم: 23046:
عن سليمان بن بريدة عن أبيه قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول: من أنظر معسرًا فله بكل يوم مثله صدقة، قال: ثم سمعته يقول: من أنظر معسرًا فله بكل يوم مثليه صدقة، قلت: سمعتك يا رسول الله تقول: من أنظر معسرًا فله بكل يوم مثله صدقة، ثم سمعتك تقول: من أنظر معسرًا فله بكل يوم مثليه صدقة؟ قال: له بكل يوم صدقة قبل أن يحل الدين، فإذا حل الدين فأنظره فله بكل يوم مثليه صدقة.
2. صحيح البخاري، باب الحوالة، رقم: 2287:
عن أبي هريرة رضي الله عنه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «مطل الغني ظلم، فإذا أتبع أحدكم على ملي فليتبع»
3. الفتاوى قاضيخان لحسن بن منصور الأوزجندي 2/ 209:
فان قال الطالب: هومعسر لا يحبسه لأنه لو أقر بعسرته بعد الحبس أخرجه فقبل الحبس لايحبسه فان قال الطالب: هو موسر قادر على القضاء، وقال المديون أنا بعسر تكلموا فيه قال بعضهم: القول قول المديون أنه معسر، وقال بعضهم: ان كان الدين واجبا بدلا عما هو مال كالقرض وثمن المبيع، القول قول مدعي اليسار مروي ذلك عن أبي حنيفة رحمه الله تعالى، وعليه الفتوى.
4. بدائع الصنائع للكاساني، الفصل الثاني الحبس 7/ 173:
فإن علم أنه غني حبسه إلى أن يقضي الدين؛ لأنه ظهر ظلمه بالتأخير، وإن علم أنه فقير خلى سبيله؛ لأنه ظهر أنه لا يستوجب الحبس فيطلقه، ولكن لا يمنع الغرماء عن ملازمته عند أصحابنا الثلاثة – رضي الله عنهم -، إلا إذا قضى القاضي بالإنظار لاحتمال أن يرزقه الله سبحانه وتعالى مالا، إذ المال غاد ورائح، وعند زفر رحمه الله لا يلازمونه؛ لقوله تبارك وتعالى:{وإن كان ذو عسرة فنظرة إلى ميسرة} [البقرة: 280] ذكر النظرة بحرف الفاء فثبت من غير قضاء القاضي.
واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی
فتوی نمبر:531
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-04
All Categories
- اجارہ کے مسائل (24)
- اذان کے مسائل (20)
- اعتقادی مسائل (36)
- اعتکاف کے مسائل (18)
- امانت کے مسائل (16)
- پاکی ناپاکی کےمسائل (152)
- حج کے مسائل (33)
- حدود کے مسائل (19)
- حظر واباحت کے مسائل (102)
- خرید وفروخت کے مسائل (71)
- خلع کے مسائل (16)
- دعوی کے مسائل (19)
- ذبائح اور شکار کے مسائل (17)
- رضاعت کے مسائل (17)
- روزے مسائل (44)
- زکوٰۃ کے مسائل (87)
- ضمان کے مسائل (17)
- طلاق کے مسائل (76)
- عمرہ کے مسائل (17)
- قربانی کے مسائل (18)
- قرض کے مسائل (24)
- قسم اور منت کے مسائل (25)
- قمار اور ربوا کے مسائل (20)
- كتاب الكراهية (51)
- کفارہ کے مسائل (22)
- مشترک کاروبار کے مسائل (17)
- میراث اور وصیت کے مسائل (18)
- نان نفقہ کے مسائل (19)
- نکاح کے مسائل (82)
- نماز کے مسائل (154)
- ہبہ کے مسائل (20)
- وقف کے مسائل (29)
- وکالت کے مسائل (20)