Notice: Function _load_textdomain_just_in_time was called incorrectly. Translation loading for the paroti domain was triggered too early. This is usually an indicator for some code in the plugin or theme running too early. Translations should be loaded at the init action or later. Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 6.7.0.) in /home/darulift/public_html/wp-includes/functions.php on line 6121
@123بیوی کو ملنے والامہر،ہار وغیرہ کس کی ملکیت کہلائے گی؟ - Darul Ifta Mardan
  • muftisaniihsan@google.com
  • 03118160190
0
Your Cart
No products in the cart.

@123بیوی کو ملنے والامہر،ہار وغیرہ کس کی ملکیت کہلائے گی؟

سوال:
ایک لڑکا شادی کے (18) دن بعد فوت ہوگیا، اور مہر میں تین تولہ سونا مقرر کیا تھا، اور عورت کو ادا بھی کیا ہے، اس کے علاوہ لڑکی کو شوہر کے گھر والوں نے بطور تحفہ ایک ہار اور ایک انگوٹھی دی تھی، اور لڑکی نے اس پر قبضہ بھی کرلیا تھا، لیکن اب یہ تینوں چیزیں لڑکے کے گھر والوں کے پاس ہیں، اب سوال یہ ہے، کہ یہ ہار، انگوٹھی اور تین تولہ سونا جو لڑکے کے گھر والوں کے پاس ہیں، اس لڑکی کا حق ہے یا نہیں؟
جواب:
مذکورہ صورت میں عورت كو پورا مہر دینا شوہر کے ذمہ لازم ہوچکا ہے، مہر میں مقرر کردہ تین تولہ سونا چونکہ عورت کا حق ہے، اس لیے شوہر کے گھر والوں کو چاہیے کہ تین تولہ سونا عورت کو واپس کردے، اور باقی ایک ہار اور انگوٹھی عورت کو سسرال والوں نے دیتے وقت یہ تصریح ہو، کہ یہ بطورِعاریت یعنی صرف استعمال کرنے کے لیے ہے، تو پھر یہ زیورات شوہر کے گھر والوں کی ملکیت ہوں گے، اور اگر سسرال والوں نے بطورِ گفٹ مالک بناکر دینے کی تصریح کی ہو، تو پھر ان زیورات کی مالکہ عورت ہوگی، اور اگر دیتے وقت کوئی تصریح نہ کی گئی ہو تو پھر شوہر کے خاندان کے عرف کا اعتبار ہوگا، اگر ان کا عرف ورواج عاریت کا ہے تو یہ عاریت ہوگی، اور اگر ہبہ کا ہے تو پھر یہ ہبہ شمار ہوگا۔

حوالہ جات:
لما في سنن ابن ماجه، باب العارية، الرقم: 2399
عن أنس بن مالك، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: العارية مؤداة، والمنحة مردودة.
في الدر المختار للحصكفي مع رد المحتار، كتاب النكاح، باب المهر  3/ 102:
ويتأكد (عند وطء، أو خلوة صحت) من الزوج (أو موت أحدهما) أو تزوج ثانيا في العدة،
وفيه ايضا:
قلت: ومن ذلك ما يبعثه إليها قبل الزفاف في الأعياد، والمواسم من نحو ثياب وحلي، وكذا ما يعطيها من ذلك، أو من دراهم، أو دنانير صبيحة ليلة العرس ويسمى في العرف صبحة، فإن كل ذلك تعورف في زماننا كونه هدية، لا من المهر ولا سيما المسمى صبحة، فإن الزوجة تعوضه عنها ثيابه، ونحوها صبيحة العرس أيضا.
وفيه ايضا: والمعتمد البناء على العرف، كما علمت.
وفي الدرالمختار للحصكفي،كتاب الهبة  1/ 561:
(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل (ولو الموهوب شاغلا لملك الواهب، لا مشغولا به) والاصل أن الموهوب إن مشغولا بملك الواهب، منع تمامها، وإن شاغلا لا.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:507
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-01

image_pdfimage_printپرنٹ کریں