پگڑی کے بغیر نماز پڑھانا کیساہے؟:
سوال:
ایک آدمی ہے، وہ مسجد کے امام کے پیچھے نماز اس لیے نہیں پڑھتا کہ امام صاحب پگڑی نہیں باندھتے، بلکہ ٹوپی میں نماز پڑھاتے ہے، اب سوال یہ ہے کہ امام کے لیے پگڑی باندھنا ضروری ہے، یا ٹوپی میں بھی نماز پڑھانا درست ہے؟
جواب:
عمامہ باندھنا نماز اور غیر نماز دونوں حالتوں میں سنت ہے، امام، مقتدی اور غیر مقتدی سب کے لیے، البتہ عمامہ باندھ کر نماز پڑھنا اور پڑھانا مستحب ہے، لیکن بغیر عمامہ کے صرف ٹوپی میں بھی نماز پڑھنا اور پڑھانا بلا کراہت درست ہے، البتہ جس جگہ عمامہ کا اتنا رواج ہو کہ وہ لباس کا حصہ بن چکا ہو اور بغیر عمامہ کے باوقار مجلس میں لوگ نہ جاتے ہوں، تو ایسی جگہ نماز پڑھانے کے لیے امام کو عمامہ باندھنے کا زیادہ اہتمام کرنا چاہیے، لیکن پگڑی باندھنے کو امام کے لیے ضروری سمجھنا اور اس کے بغیر اس کے پیچھے نماز نہ پڑھنا درست نہیں، نیز جن احادیث میں عمامہ کے ساتھ نماز پڑھنے پڑھانے کا زیادہ ثواب مذکور ہے وہ حد درجہ ضعیف ہیں۔
حوالہ جات:
1. شعب لايمان للبيهقي، باب الملابس والزي، فصل في العمائم، الرقم: 5851:
عن عبادة قال: قال رسول اللهﷺ: عليكم بالعمائم، فإنها سيما الملائكة، وأرخو لها خلف ظهوركم.
2. الفردوس بمأثور الخطاب للدیلمي، باب الراء، الرقم: 3233:
ركعتان بعمامة أفضل من سبعين ركعة بغير عمامة.
3. فيض القدير شرح الجامع الصغير للمناوي، حرف الراء 37/4:
ركعتان بعمامة … ورواه عنه أيضا أبو نعيم ومن طريقه وعنه تلقاه الديلمي فلو عزاه إلى الأصل لكان أولى ثم إن فيه طارق بن عبد الرحمن أورده الذهبي في الضعفاء وقال: قال النسائي: ليس بقوي عن محمد بن عجلان ذكره البخاري في الضعفاء وقال الحاكم: سيء الحفظ ومن ثم قال السخاوي: هذا الحديث لا يثبت.
4. الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب الصلاة، باب شروط الصلاة 1/ 59:
والمستحب أن يصلي في ثلاثة أثواب: قميص، وإزار، وعمامة، أما لو صلى في ثوب واحد متوشحا به، تجوز صلاته من غير كراهة.
5. رد المحتار لابن عابدين، كتاب الطهارة، مطلب: في السنة وتعريفها 1/ 230:
والسنة نوعان: سنة الهدى، وتركها يوجب إساءة وكراهية، كالجماعة والأذان والإقامة ونحوها، وسنة الزوائد وتركها لا يوجب ذلك، كسير النبي عليه الصلاة والسلام في لباسه، وقيامه، و قعوده.
6. عمد الرعاية بتحشية شرح الوقاية للعلامة عبد الحي اللكنوي، باب ما يفسد الصلاة وما يكره فيها 2/ 382:
وقد ذکروا أن المستحب أن يصلي في قميص و إزار وعمامة، ولا يكره الإكتفاء بالقلنسوة، ولا عبرة لما اشتهر بين العوام من كراهة ذالك، وكذا ما اشتهر أن المؤتم لو كان معتما العمامة، والإمام مكتفيا على قلنسوة يكره.
واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی
فتوی نمبر:481
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-31
All Categories
- اجارہ کے مسائل (24)
- اذان کے مسائل (20)
- اعتقادی مسائل (36)
- اعتکاف کے مسائل (18)
- امانت کے مسائل (16)
- پاکی ناپاکی کےمسائل (152)
- حج کے مسائل (33)
- حدود کے مسائل (19)
- حظر واباحت کے مسائل (102)
- خرید وفروخت کے مسائل (71)
- خلع کے مسائل (16)
- دعوی کے مسائل (19)
- ذبائح اور شکار کے مسائل (17)
- رضاعت کے مسائل (17)
- روزے مسائل (44)
- زکوٰۃ کے مسائل (87)
- ضمان کے مسائل (17)
- طلاق کے مسائل (76)
- عمرہ کے مسائل (17)
- قربانی کے مسائل (18)
- قرض کے مسائل (24)
- قسم اور منت کے مسائل (25)
- قمار اور ربوا کے مسائل (20)
- كتاب الكراهية (51)
- کفارہ کے مسائل (22)
- مشترک کاروبار کے مسائل (17)
- میراث اور وصیت کے مسائل (18)
- نان نفقہ کے مسائل (19)
- نکاح کے مسائل (82)
- نماز کے مسائل (154)
- ہبہ کے مسائل (20)
- وقف کے مسائل (29)
- وکالت کے مسائل (20)