پچھلی صف میں تنہا کھڑے ہوکرنماز پڑھنا کیسا ہے؟
سوال:
با جماعت نماز ادا کرنے کے دوران بعض لوگ اگلی صف میں جگہ خالی ہونے کے باوجود پچھلی صف میں کھڑے ہوجا تے ہیں، ان کی نماز درست ہے یا نہیں؟
جواب:
اگلی صف میں اگرخالی جگہ موجود ہو، تو پچھلی صف میں نماز پڑھنے سے اگرچہ نماز ادا ہوجاتی ہے، لیکن بلا عذر اس طرح کرنا مکروہ اور برا ہے، تاہم اگر اگلی صف میں جگہ نہ ہو تو اولا انتظار کرے، اگر کوئی آجائے تو دونوں پچھلی صف میں کھڑے ہوجائیں، ورنہ اگلی صف سے کسی مناسب فرد کو پیچھے کرکے اپنے ساتھ کھڑا کرلے، لیکن اگر خطرہ ہو کہ کسی کو پیچھے کرنے سے وہ لڑ پڑے گااور اس کی نماز فاسد ہوجائے گی، تو ایسی صورت میں پچھلی صف میں اکیلے نماز پڑھنا مکروہ نہیں۔
حوالہ جات:
لما في المصنف لابن أبي شيبة، كتاب صلاة التطوع والإمامة، إذا جاء وقد تم الصف الرقم: 6146:
عن عطاء، في الرجل يدخل المسجد، وقد تم الصف قال: «إن استطاع أن يدخل في الصف دخل، وإلا أخذ بيد رجل فأقامه معه، ولم يقم وحده».
وفي رد المحتار لابن عابدين، كتاب الصلاة، فرع لا بأس بتكليم المصلي وإجابته برأسه 1/ 647:
أتى جماعة، ولم يجد في الصف فرجة قيل: يقوم وحده ويعذر، وقيل: يجذب واحدا من الصف إلى نفسه فيقف بجنبه، والأصح ما روى هشام عن محمد أنه ينتظر إلى الركوع، فإن جاء رجل وإلا جذب إليه رجلا، أو دخل في الصف، ثم قال في القنية: والقيام وحده أولى في زماننا؛ لغلبة الجهل على العوام، فإذا جره تفسد صلاته اهـ قال في الخزائن: قلت: وينبغي التفويض إلى رأي المبتلى، فإن رأى من لا يتأذى لدين، أو صداقة زاحمه أو عالما جذبه وإلا انفرد.
وفي الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب الصلاة، الفصل الخامس في بيان مقام الإمام والمأموم 1/ 107:
ويكره للمنفرد أن يقوم في خلال صفوف الجماعة فيخالفهم في القيام والقعود، وكذا للمقتدي أن يقوم خلف الصفوف وحده إذا وجد فرجة في الصفوف، وإن لم يجد فرجة في الصفوف روى محمد بن شجاع وحسن بن زياد عن أبي حنيفة رحمه الله تعالى أنه لا يكره، فإن جر أحدا من الصف إلى نفسه، وقام معه فذلك أولى، كذا في المحيط، وينبغي أن يكون عالما حتى لا تفسد الصلاة على نفسه.
وفي حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح، كتاب الصلاة، فصل في المكروهات، ص:132:
ويكره (القيام خلف صف فيه) فرجة للأمر بسد فرجات الشيطان، ولقوله عليه الصلاة والسلام من سد فرجة من الصف كتب له عشر حسنات ومحاعنه عشر سيئات ورفع له عشر درجات.
والقيام في صف الأول أفضل من الثاني، وفي الثاني أفضل من الثالث … وجد في الصف الأول فرجة دون الثاني، فله أن يصلي في الصف الأول، ويخرق الثاني؛ لأنه لا حرمة له لتقصيرهم حيث لم يسدوا الصف الأول.
واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی
فتوی نمبر:434
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-24
All Categories
- اجارہ کے مسائل (24)
- اذان کے مسائل (20)
- اعتقادی مسائل (36)
- اعتکاف کے مسائل (18)
- امانت کے مسائل (16)
- پاکی ناپاکی کےمسائل (152)
- حج کے مسائل (33)
- حدود کے مسائل (19)
- حظر واباحت کے مسائل (102)
- خرید وفروخت کے مسائل (71)
- خلع کے مسائل (16)
- دعوی کے مسائل (19)
- ذبائح اور شکار کے مسائل (17)
- رضاعت کے مسائل (17)
- روزے مسائل (44)
- زکوٰۃ کے مسائل (87)
- ضمان کے مسائل (17)
- طلاق کے مسائل (76)
- عمرہ کے مسائل (17)
- قربانی کے مسائل (18)
- قرض کے مسائل (24)
- قسم اور منت کے مسائل (25)
- قمار اور ربوا کے مسائل (20)
- كتاب الكراهية (51)
- کفارہ کے مسائل (22)
- مشترک کاروبار کے مسائل (17)
- میراث اور وصیت کے مسائل (18)
- نان نفقہ کے مسائل (19)
- نکاح کے مسائل (82)
- نماز کے مسائل (154)
- ہبہ کے مسائل (20)
- وقف کے مسائل (29)
- وکالت کے مسائل (20)