Notice: Function _load_textdomain_just_in_time was called incorrectly. Translation loading for the paroti domain was triggered too early. This is usually an indicator for some code in the plugin or theme running too early. Translations should be loaded at the init action or later. Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 6.7.0.) in /home/darulift/public_html/wp-includes/functions.php on line 6121
غسل میں کلی کرنا یا ناک میں پانی ڈالنا بھول جائے - Darul Ifta Mardan
  • muftisaniihsan@google.com
  • 03118160190
0
Your Cart
No products in the cart.

غسل میں کلی کرنا یا ناک میں پانی ڈالنا بھول جائے

سوال:
ایک شخص نے غسل جنابت سے پہلے وضو کیا اور اس کے بعد غسل میں ناک میں پانی ڈالنا اور کلی کرنا بھول گیا اور نماز بھی پڑھ لی، کیا اس شخص کا غسل ہوگیا اور اس سے پڑھی گئی نماز ادا ہوگئی کہ نہیں؟
جواب:
مذکورہ صورت میں اگر غسل سے پہلے وضو میں کلی کرکے ناک میں پانی ڈالا تھا اور بعد میں غسل کرتے ہوئے کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا بھول گیا تو ایسی صورت میں غسل درست ہے، دوبارہ کرنے کی ضرورت نہیں، لیکن اگر وضو میں بھی یہ دونوں کام بھول گیا تھا تو صرف منہ اور ناک میں پانی ڈالنا کافی ہے، از سرِنو پوراغسل دہرانے کی ضرورت نہیں، تاہم دوسری صورت میں اگر غسل کے بعد فرض نماز ادا کی ہو تو اس کا اعادہ کرنا لازم ہے اور اگر نفل نماز ادا کی ہو تو اس کے اعادہ کی ضرورت نہیں۔ 

حوالہ جات:
لما في الأصل لمحمد بن الحسن الشيباني، كتاب الصلاة، باب الوضوء والغسل من الجنابة1/ 41:
قلت: أرأيت رجلا توضأ، ونسى المضمضة والاستنشاق، أو كان جنبا فنسي المضمضة والاستنشاق، ثم صلى قال: أما ما كان في الوضوء فصلاته تامة، وأما ما كان في غسل الجنابة، أو طهر حيض فإنه يتمضمض، ويستنشق، ويعيد الصلاة، قلت من أين اختلفا؟ قال: هما في القياس سواء إلا أنا ندع القياس؛ للآثر الذي جاء عن ابن عباس رضي الله عنهما.
وفي اللباب في الجمع بين السنة والكتاب لجمال الدين الخزرجي، باب المضمضة والاستنشاق فرضان في الغسل 1/ 129:
عن ابن عباس رضي الله عنهما قال: ” إذا نسي المضمضة والاستنشاق إن كان جنبا أعاد المضمضة والاستنشاق، واستأنف الصلاة “.
وفي الدر المختار للحصكفي، كتاب الطهارة، مطلب في أبحاث الغسل 1 /317:
نسي المضمضة أو جزءا من بدنه فصلى ثم تذكر، فلو نفلا لم يعد لعدم صحة شروعه.
قال ابن عابدين تحت قوله: (لعدم صحة شروعه) أي: والنفل، إنما تلزم إعادته بعد صحة الشروع فيه قصدا، وسكت عن الفرض لظهور أنه يلزمه الإتيان به مطلقا.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:404
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-23

image_pdfimage_printپرنٹ کریں