Notice: Function _load_textdomain_just_in_time was called incorrectly. Translation loading for the paroti domain was triggered too early. This is usually an indicator for some code in the plugin or theme running too early. Translations should be loaded at the init action or later. Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 6.7.0.) in /home/darulift/public_html/wp-includes/functions.php on line 6121
صلح کے دن کسی فریق پر لوگوں کو کھانا کھلانے کی ذمہ داری ڈالنا کیسا ہے؟: - Darul Ifta Mardan
  • muftisaniihsan@google.com
  • 03118160190
0
Your Cart
No products in the cart.

صلح کے دن کسی فریق پر لوگوں کو کھانا کھلانے کی ذمہ داری ڈالنا کیسا ہے؟:

سوال:
   ہمارے علاقہ میں جب فریقین کے درمیان جھگڑا ہو جاتا ہے، تو پھر صلح میں جرگہ والے کبھی دونوں فریقوں پر اور کبھی کسی ایک فریق پرجرمانہ لگاتے ہیں اور صلح کے دن دیگیں پکانا بھی ذمہ لگاتے ہیں، تو ان کا یہ جرمانہ لگانا جائز ہے یا نہیں؟
جواب:
   جرگہ والوں کا بوقتِ صلح اس قسم کا جرمانہ لگانا کہ اتنے بندوں کو تمہیں کھانا کھلانا پڑے گا درست نہیں، کیونکہ یہ مالی جرمانہ ہے اور مالی جرمانہ لگانا جمہور علماء کے نزدیک ممنوع ہے۔

حوالہ جات:
1. البحر الرائق لابن نجيم، كتاب الحدود، باب حد القذف، فصل في التعزير5/ 44:
   لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي.
2. الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب الحدود، الباب السابع في حد القذف والتعزير، فصل في التعزير2/ 167 :
   عند أبي يوسف رحمه الله تعالى يجوز التعزير للسلطان بأخذ المال، وعندهما، وباقي الأئمة الثلاثة، لا يجوز كذا في فتح القدير، ومعنى التعزير بأخذ المال على القول به إمساك شيء من ماله عنده مدة لينزجر، ثم يعيده الحاكم إليه، لا أن يأخذه الحاكم لنفسه، أو لبيت المال، كما يتوهمه الظلمة، إذ لا يجوز؛ لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي، كذا في البحر الرائق.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:400
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-19

image_pdfimage_printپرنٹ کریں