کسی کو کاروبار کے لیے رقم دیکر اپنے لیے سارے منافع کی شرط لگانا:
سوال:
زید کے پاس رقم ہے اور خالد اس کو کہتا ہے کہ مجھے رقم دے دو، میں اس سے کاروبار کروں گا اور سارا منافع آپ کو دوں گا، کیا یہ معاملہ جائز ہے؟ اور اس کو فقہی اصطلاح میں کون سا معاملہ کہا جاتا ہے؟
جواب:
سوال میں ذکر کردہ معاملہ شرعاً جائز ہے اور اس قسم کے معاملہ میں نفع ونقصان سارا کا سارا صاحبِ مال کا ہوتا ہے، فقہی اصطلاح میں اس کو عقدِ بضاعت کہتے ہیں۔
حوالہ جات:
1. الدر المختار للحصكفي، كتاب المضاربة 5/ 647 :
(ودفع المال إلى آخر مع شرط الربح) كله (للمالك بضاعة) فيكون وكيلا متبرعا (ومع شرطه للعامل قرض) لقلة ضرره.
2. البحر الرائق لابن نجيم، كتاب المضاربة 7/ 449:
ومستقرض عند اشتراط كل الربح له، ومستبضع عند اشتراطه لرب المال فلا ربح له ولا أجر، ولا ضمان عليه بالهلاك.
واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی
فتوی نمبر:388
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-18
All Categories
- اجارہ کے مسائل (24)
- اذان کے مسائل (20)
- اعتقادی مسائل (36)
- اعتکاف کے مسائل (18)
- امانت کے مسائل (16)
- پاکی ناپاکی کےمسائل (153)
- حج کے مسائل (33)
- حدود کے مسائل (19)
- حظر واباحت کے مسائل (102)
- خرید وفروخت کے مسائل (71)
- خلع کے مسائل (16)
- دعوی کے مسائل (19)
- ذبائح اور شکار کے مسائل (17)
- رضاعت کے مسائل (17)
- روزے مسائل (44)
- زکوٰۃ کے مسائل (87)
- ضمان کے مسائل (17)
- طلاق کے مسائل (76)
- عمرہ کے مسائل (17)
- قربانی کے مسائل (18)
- قرض کے مسائل (24)
- قسم اور منت کے مسائل (25)
- قمار اور ربوا کے مسائل (20)
- كتاب الكراهية (51)
- کفارہ کے مسائل (22)
- مشترک کاروبار کے مسائل (17)
- میراث اور وصیت کے مسائل (18)
- نان نفقہ کے مسائل (19)
- نکاح کے مسائل (82)
- نماز کے مسائل (154)
- ہبہ کے مسائل (20)
- وقف کے مسائل (29)
- وکالت کے مسائل (20)