Notice: Function _load_textdomain_just_in_time was called incorrectly. Translation loading for the paroti domain was triggered too early. This is usually an indicator for some code in the plugin or theme running too early. Translations should be loaded at the init action or later. Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 6.7.0.) in /home/darulift/public_html/wp-includes/functions.php on line 6121
@123وکیل کو تحفہ میں ملنے والی چیز کس کی ہوگی؟ - Darul Ifta Mardan
  • muftisaniihsan@google.com
  • 03118160190
0
Your Cart
No products in the cart.

@123وکیل کو تحفہ میں ملنے والی چیز کس کی ہوگی؟

سوال:
میں دبئی میں ملازم ہوں، کمپنی کے لیے یا اپنے مالکوں کے لیے جب بازار سے سودا لیتا ہو، تو وہ دکاندار خصوصی طور پر اپنی طرف سے کبھی مجھے تیس(30) ریال یا کبھی کبھی موبائل کارڈ دیتا ہے، تو کیا یہ کارڈ اور پیسے میرے لیے لینا درست ہے یا نہیں؟ اور یہ پیسے اسی وجہ سے دکاندار دیتا ہے کہ میں اسی دکاندار سے سامان خریدتا ہوں۔
جواب:
واضح رہے کہ ملازم کمپنی کی طرف سے خرید وفروخت کا وکیل ہوتا ہے، لہذا اگر کوئی دکاندار اس کو زیادہ خریداری پر یا کمپنی کی پہچان کی وجہ سے کوئی رقم یا کارڈ وغیرہ دیتا ہے، تو وہ اس کمپنی کا ہوگا اس کو خود رکھنا درست نہیں، البتہ اگر کمپنی نے صراحت کے ساتھ کہہ دیا کہ دکاندار کی طرف سے ملنے والی رقم یا تحفہ اس ملازم کے لیے ہے، تو ایسی صورت میں اس ملازم کے لیے وہ رقم یا تحفہ لینا جائز ہے۔

حوالہ جات:
لما في البحر الرائق لابن نجيم، باب الرجوع عن الشهادة 7/ 155:
ولو أمر رجلا أن يشتري له جارية بألف فاشتراها ثم إن البائع وهب الألف من الوكيل فللوكيل أن يرجع على الآمر، ولو وهب منه خمسمائة لم يكن له أن يرجع على الآمر إلا بخمسمائة، ولو وهب منه خمسمائة، ثم وهب منه أيضا الخمسمائة الباقية، لم يرجع الوكيل على الآمر إلا بالخمسمائة الأخرى؛ لأن الأول حط، والثاني هبة، ولو وهب منه تسعمائة، ثم وهب منه المائة الباقية، لا يرجع على الآمر إلا بالمائة الأخرى، وهذا كله قياس قول أبي حنيفة وأبي يوسف والحسن.
وفي رد المحتار لابن عابدين،  كتاب الوكالة،  مطلب الجهالة ثلاثة أنواع 7/ 304:
لو وهب له نصفه ثم وهب له النصف الآخر، لا يرجع الوكيل على الآمر إلا بالخمسمائة الأخرى؛ لأن الأول حط، والثاني هبة.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:308
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-11

image_pdfimage_printپرنٹ کریں