@123قرض واپس نہ ملنے کی صورت میں زکاۃ کا حکم
سوال:
ایک عورت کا تین تولہ سونا تھا، اس کی وفات کے بعد اس کے ورثاء میں اس کا شوہر، بیٹا اور 2 بیٹیاں اور ماں زندہ ہیں، جب شوہر نے دوسری شادی کی، تو اس دوسری بیوی کو پہلی بیوی کا ہی زیور حق مہر میں دے دیا، جبکہ بچے اس کے سب نابالغ تھے، صرف اتنا بتایا کہ یہ ٹھیکا بڑی بیٹی کا ہے، یہ واپس کرنا ہے، لیکن اس دوسری بیوی نے کچھ عرصہ بعد بتایا، کہ اس کا اپنا بیٹا جب بیمار ہوا تھا، تو اس نے فروخت کیا ہے، اب اس صورتِ حال میں بڑی بیٹی بالغ ہوچکی ہے، تو کیا اس کو زکاۃ کا مال دیا جاسکتا ہے۔
جواب:
مذکورہ صورت میں عورت کے وفات ہونے پر اس نے ترکہ میں تین تولہ سونا اور اس کے علاوہ دیگر جتنا کچھ نقد وغیرہ چھوڑا ہے ان سب کو اڑتالیس (48) برابر حصوں میں تقسیم کرکے شوہر کو بارہ (12) حصے، ماں کو آٹھ (8) حصے، بیٹے کو چودہ (14) حصے، اور دونوں بیٹیوں میں سے ہر ایک کے سات سات (7) حصے بنتے ہیں، لہٰذا بڑی بیٹی کا صرف سونے میں جو حصہ بنتا ہے، وہ تقریبا 25 .5 ماشے سونا ہیں، پس اگر اس لڑکی کے پاس اس کے علاوہ کچھ نقد رقم یا سونا یا چاندی یا ضرورت سے زائد سامان موجود ہو کہ ان سب کو ملا کر 52.5 تولہ چاندی کی قیمت کو پہنچتا ہو، اور جو سونا قرض ہے اس کے ملنے کی قوی امید بھی ہو، تو اس کے لیے زکوۃ لینا جائز نہیں ہے، لیکن اگر اس کو اپنا قرض سونا یا اس کی قیمت ملنے کی امید نہ ہو، اور اس کے علاوہ اس کے پاس اتنا مال بھی نہ ہو جو نصاب کو پہنچتا ہو، تو اس کو زکوۃ دینا جائز ہے، اور اس كے ليے لينا۔
حوالہ جات:
لما في البحر الرائق لابن نجيم، كتاب الزكاة، باب المصرف 2/ 420:
والذي له دين مؤجل على إنسان إذا احتيج إلى النفقة، يجوز له أن يأخذ من الزكاة قدر كفايته إلى حلول الأجل، وإن كان الدين غير مؤجل، فإن كان من عليه الدين معسرا يجوز له أخذ الزكاة … وإن كان المديون موسرا معترفا لا يحل له أخذ الزكاة،وليس عنده نصاب فاضل في الفصلين.
وفي فتح القدير لابن الهمام، كتاب الزكاة، باب من يجوز دفع الصدقة إليه ومن لا يجوز 2/ 268:
(والغارم من لزمه دين) أو له دين على الناس لا يقدر على أخذه، ولیس عندہ نصاب فاضل في الفصلين.
وفي النهر الفائق لعمر بن إبراهيم، كتاب الزكاة، باب المصرف 1/ 460:
وفي الخانية: أن من له مؤجل إذا احتاج إلى النفقة، يجوز له أخذ الزكاة قدر كفايته إلى حلول الأجل، ولو كان حالا إلى أن الذي عليه الدين معسر، يجوز له الأخذ في أصح الأقاويل؛ لأنه بمنزلة ابن السبيل، ولو كان موسرا معترفا، لا يحل.
وفي الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب الزكاة، باب المصارف 1/ 188:
(ومنها الغارم) وهو من لزمه دين، ولا يملك نصابا فاضلا عن دينه، أو كان له مال على الناس لا يمكنه أخذه.
واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی
فتوی نمبر:285
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-08
All Categories
- اجارہ کے مسائل (24)
- اذان کے مسائل (20)
- اعتقادی مسائل (36)
- اعتکاف کے مسائل (18)
- امانت کے مسائل (16)
- پاکی ناپاکی کےمسائل (152)
- حج کے مسائل (33)
- حدود کے مسائل (19)
- حظر واباحت کے مسائل (102)
- خرید وفروخت کے مسائل (71)
- خلع کے مسائل (16)
- دعوی کے مسائل (19)
- ذبائح اور شکار کے مسائل (17)
- رضاعت کے مسائل (17)
- روزے مسائل (44)
- زکوٰۃ کے مسائل (87)
- ضمان کے مسائل (17)
- طلاق کے مسائل (76)
- عمرہ کے مسائل (17)
- قربانی کے مسائل (18)
- قرض کے مسائل (24)
- قسم اور منت کے مسائل (25)
- قمار اور ربوا کے مسائل (20)
- كتاب الكراهية (51)
- کفارہ کے مسائل (22)
- مشترک کاروبار کے مسائل (17)
- میراث اور وصیت کے مسائل (18)
- نان نفقہ کے مسائل (19)
- نکاح کے مسائل (82)
- نماز کے مسائل (154)
- ہبہ کے مسائل (20)
- وقف کے مسائل (29)
- وکالت کے مسائل (20)