@123حرام کمائی پر زکوٰۃ کا حکم
سوال:
زید نے نا جائز کمائی سے کچھ مال حاصل کیا، اور اس پر سال گزر گیا، تو کیا اس پر زکوٰۃ آئی گی یا نہیں؟
جواب:
ذکر کردہ صورت میں اگر زید کا کمایا ہوا سارا مال حرام ہے، تو اس پر زکوۃ نہیں ہے، بلکہ اگر حرام مال کا مالک معلوم ہو، تو اس کو یا اس کے ورثاء کو مال واپس کرنا لازم ہے، اور اگر مالک یا وارث معلوم نہ ہو، تو سارے مال کو ثواب کی نیت کیے بغیر کسی مستحق زکوٰۃ کو دینا ضروری ہے، اور اگر مال حرام وحلال دونوں پر مشتمل ہو، اورجدا کرنا ممکن ہو، تو بھی یہی حکم ہے کہ اگر مالک معلوم ہو تو واپس کرے اور اگر معلوم نہ ہو، تو صدقہ کرے، اور اگر جدا کرنا ممکن نہ ہو، توحلال مال حرام کے ساتھ ملنے کی وجہ سے یہ حرام مال اس کی ملکیت میں داخل ہوجائے گا، لہٰذا اس مخلوط مال پر بھی زکوٰۃ آئی گی۔
حوالہ جات:
لما في الدر المختار مع رد المحتار لابن عابدين، كتاب الزكاة، مطلب: فيما لو صادر السلطان رجلا فنوى بذلك أداء الزكاة 3/ 258:
(ولو خلط السلطان المال المغصوب بماله، ملكه، فتجب الزكاة فيه، ويورث عنه) … وهذا إذا كان له مال غير ما استهلكه بالخلط، منفصل عنه، يوفي دينه، وإلا فلا زكاة، كما لو كان الكل خبيثا.
قال ابن عابدين تحت قوله:(كما لو كان الكل خبيثا) في القنية: ولو كان الخبيث نصابا لا يلزمه الزكاة؛ لأن الكل واجب التصدق عليه فلا يفيد إيجاب التصدق ببعضه.
وفي التاتارخانية لعالم بن العلاء، كتاب الزكاة، الفصل، مايمنع وجوب الزكاة 3/ 233:
ومن ملک أموالا غير طيبة، أو غصب أموالا وخلطها، ملكها بالخلط، ويصير ضامنا، وإن لم يكن له سواها نصاب، فلا زكاة عليه في تلك الأموال وإن بلغت نصابا؛ لأنه مديون، ومال المديون لا ينعقد سببا لوجوب الزكاة عندنا.
وفي البحر الرائق لابن نجيم، كتاب الزكاة 2/ 359:
قلت: وقد رأيت ما يفيده في الفصل العاشر من التاتارخانية حيث قال عن فتاوى الحجة: ومن ملك أموالا غير طيبة أو غصب أموالا وخلطها، ملكها بالخلط، ويصير ضامنا، وإن لم يكن له سواها نصاب، فلا زكاة عليه في تلك الأموال، وإن بلغت نصابا؛ لأنه مديون، ومال المديون لا ينعقد سببا لوجوب الزكاة عندنا.
وفي النهر الفائق لعمر بن إبراهيم، كتاب الزكاة 1/ 414:
لو أن سلطانا غصب مالا وخلطه صار ملكا له حتى وجبت عليه الزكاة … وينبغي أن يقيد بما أذا لم يكن له مال غيره يوفي منه الكل أو ابعض، فإن كان، زكى ما قدر على وفائه.
واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی
فتوی نمبر:282
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-08
All Categories
- اجارہ کے مسائل (24)
- اذان کے مسائل (20)
- اعتقادی مسائل (36)
- اعتکاف کے مسائل (18)
- امانت کے مسائل (16)
- پاکی ناپاکی کےمسائل (152)
- حج کے مسائل (33)
- حدود کے مسائل (19)
- حظر واباحت کے مسائل (102)
- خرید وفروخت کے مسائل (71)
- خلع کے مسائل (16)
- دعوی کے مسائل (19)
- ذبائح اور شکار کے مسائل (17)
- رضاعت کے مسائل (17)
- روزے مسائل (44)
- زکوٰۃ کے مسائل (87)
- ضمان کے مسائل (17)
- طلاق کے مسائل (76)
- عمرہ کے مسائل (17)
- قربانی کے مسائل (18)
- قرض کے مسائل (24)
- قسم اور منت کے مسائل (25)
- قمار اور ربوا کے مسائل (20)
- كتاب الكراهية (51)
- کفارہ کے مسائل (22)
- مشترک کاروبار کے مسائل (17)
- میراث اور وصیت کے مسائل (18)
- نان نفقہ کے مسائل (19)
- نکاح کے مسائل (82)
- نماز کے مسائل (154)
- ہبہ کے مسائل (20)
- وقف کے مسائل (29)
- وکالت کے مسائل (20)