@123 سبز رنگ کاعمامہ پہننا
سوال:
سبز رنگ کا عمامہ حضورﷺ سے ثابت ہے یا نہیں؟ بعض لوگ اس کو لازم سمجھتے ہیں شرعا اس کا كيا حکم ہے؟ نیز کس رنگ کا عمامہ سنت ہے؟
جواب:
واضح رہے کہ سفید اور کھالے رنگ کا عمامہ حضورﷺ سے ثابت ہے اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے، سبز رنگ کا عمامہ آپﷺ سے كس صحیح مستند حدیث سے ثابت نہیں ہے، البتہ بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم نے سبز رنگ کا عمامہ باندھا ہیں، لہذا اگر کوئی سبز عمامہ کو دوسرے رنگوں پر ترجیح نہ دے، تو سبز عمامہ باندھنا درست ہے، البتہ بعض بدعتی لوگوں نے چونکہ سبز رنگ کے عمامہ کو اپنا شعار بنا لیا ہے اور سبز رنگ کو دوسرے رنگوں پر ترجیح دیتے ہیں، ایسی صورت میں سبز عمامہ کا استعمال نہیں کرنا چاہیے، تاکہ ان کی مشابہت لازم نہ آئے۔
حوالہ جات:
لما في مرقاة المفاتيح لملا علي قاري، كتاب الصلاة، باب الخطبة والصلاة 3/ 1045، تحت الرقم 1410، :
(وعن عمرو بن حريث: «أن النبي – صلى الله عليه وسلم – خطب وعليه عمامة سوداء، قد أرخى طرفيها بين كتفيه يوم الجمعة» . رواه مسلم). … ونقل السيوطي لبس العمامة السوداء عن كثير من الصحابة والتابعين منهم: أنس بن مالك، وعمار بن ياسر، ومعاوية، وأبو الدرداء، والبراء، وعبد الرحمن بن عوف، وواثلة، وسعيد بن المسيب، والحسن البصري، وسعيد بن جبير، وغيرهم.
وفي عمدة القاري لبدر الدين العيني، كتاب اللباس، باب الثياب البيض 22/7:
عن ابن عباس أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: البسوا من ثيابكم البياض فإنها من خير ثيابكم، وكفنوا فيها موتاكم، … وهي لباس الملائكة الذين نصروا رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم أحد وغيره.
وفي مجمع الانهر لشيخي زاده، كتاب اللباس 2/ 532:
(ويستحب) الثوب (الأبيض والأسود) لقوله – عليه الصلاة والسلام – «إن الله يحب الثياب البيض وإنه خلق الجنة بيضاء» وقد روي «أنه – عليه السلام – لبس الجبة السوداء والعمامة السوداء يوم فتح مكة» ولا بأس بالأزرق وفي الشرعة ولبس الأخضر سنة، (ويكره) الثوب (الأحمر والمعصفر) للرجال؛ لأنه – عليه السلام – «نهى عن لبس الأحمر والمعصفر» .
وفي المصنف لابن أبي شيبة، كتاب اللباس 12/ 545، الرقم: 25489:
عن سليمان بن أبي عبد الله ، قال : أدركت المهاجرين الأولين يعتمون بعمائم كرابيس سود، وبيض، وحمر، وخضر، وصفر، يضع أحدهم العمامة على رأسه، ويضع القلنسوة فوقها، ثم يدير العمامة هكذا، يعني على كوره، لا يخرجها من تحت ذقنه.
واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی
فتوی نمبر:275
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-02
All Categories
- اجارہ کے مسائل (24)
- اذان کے مسائل (20)
- اعتقادی مسائل (36)
- اعتکاف کے مسائل (18)
- امانت کے مسائل (16)
- پاکی ناپاکی کےمسائل (153)
- حج کے مسائل (33)
- حدود کے مسائل (19)
- حظر واباحت کے مسائل (102)
- خرید وفروخت کے مسائل (71)
- خلع کے مسائل (16)
- دعوی کے مسائل (19)
- ذبائح اور شکار کے مسائل (17)
- رضاعت کے مسائل (17)
- روزے مسائل (44)
- زکوٰۃ کے مسائل (87)
- ضمان کے مسائل (17)
- طلاق کے مسائل (76)
- عمرہ کے مسائل (17)
- قربانی کے مسائل (18)
- قرض کے مسائل (24)
- قسم اور منت کے مسائل (25)
- قمار اور ربوا کے مسائل (20)
- كتاب الكراهية (51)
- کفارہ کے مسائل (22)
- مشترک کاروبار کے مسائل (17)
- میراث اور وصیت کے مسائل (18)
- نان نفقہ کے مسائل (19)
- نکاح کے مسائل (82)
- نماز کے مسائل (154)
- ہبہ کے مسائل (20)
- وقف کے مسائل (29)
- وکالت کے مسائل (20)