بیرونی ممالک سے کرنسی بھیجنے پر پوائنٹس ملنے کا حکم:
سوال:
باہر ملکوں میں مقیم پاکستانی جب اپنی محنت کی کمائی پاکستان میں بھیجتے ہیں، تو ان میں زیادہ تر لوگ غیر قانونی ”ھونڈی“ استعمال کرتے ہیں، جسکا ملک کو کچھ فائدہ نہیں ہوتا، اس لیے پیسے بھیجنے کے طریقے کو قانونی بنانے کے لیے حکومت پاکستان نے ”سوھنی دھرتی“ کے نام سے ایک پروگرام متعارف کرایا، اس پروگرام کی مدد سے جب باہر ملک میں مقیم پاکستانی اپنے پاسپورٹ سے رجسٹرڈ ہوتا ہے اور پھر وہ قانونی طریقے سے ملک پیسے بھیجتا ہے، تو اسے سو پاکستانی روپے کے برابر پوائنٹس مل جاتے ہیں، تو وہ ان پوائنٹس کو روپیوں میں تبدیل نہیں کرسکتا، بلکہ انہیں یوٹیلٹی سٹورز، ہوائی ٹکٹ وغیرہ کچھ اداروں میں خرچ کرسکتا ہے۔
کچھ لوگ ان کی خرید وفروخت بھی کرتے ہیں، خرید وفروخت اس طرح ہوتی ہے کہ ایک ہزار پوائنٹس آٹھ سو یا نوسو روپے میں خریدے جاتے ہیں۔
تو کیا یہ پوائنٹس حاصل کرنا، انہیں خود خرچ کرنا یا ان کی خرید وفروخت کرنا شرعا جائز ہے یا نہیں؟
جواب:
واضح رہے کہ ”سوہنی دھرتی“ اپلیکیشن کے ذریعہ جو لوگ پاکستان سے باہر ممالک میں موجود ہیں وہ اپنی رقم بینک یا ایکسچینج کمپنی کے ذریعہ پاکستان بھیجتے ہیں تو اس کے لیے اکاؤنٹ کھولتا ہے، جس میں رقم رکھوانے یا پیسے بھیجنے کے عوض بینک یا ایکسچینج کمپنی پوائنٹس دیتی ہے جو کہ قرض پر فائدہ حاصل کرنے کی ایک صورت ہے اور شرعا قرض سے کسی بھی قسم کا اور کسی بھی عنوان سے مشروط نفع لینا دینا سود ہے، البتہ اگر یہ پوائنٹس حکومتِ پاکستان اپنی طرف سے اس ایپلیکیشن کے استعمال پر دیتی ہو اور اکاونٹ میں پیسے موجود ہونے اور نہ ہونے سے اس کا کوئی تعلق نہ ہو، تو یہ حکومت کی طرف سے تبرع ہوگا، جس کا لینا اور استعمال کرنا شرعا جائز ہے، اور چونکہ ان پوائنٹس کو متعین جگہ میں خرچ کرنا حکومت کی پالیسی میں داخل ہے جس کا یہ انعام وصول کرنے والا پابند ہوتا ہے، اس لیے ان کو آگے کسی اور کو نقد رقم کے بدلہ فروخت کرنا درست نہیں ہے۔
حوالہ جات:
1. تبيين الحقائق للزيلعي، كتاب الحوالة 4/ 175:
قال: (وكره السفاتج) وهو قرض استفاد به المقرض أمن خطر الطريق … وإنما كره لما روي أنه عليه الصلاة والسلام ”نهى عن قرض جر نفعا“ وقيل إذا لم تكن المنفعة مشروطة، فلا بأس به والله أعلم.
2. رد ا المحتار لابن عابدين، كتاب الربا، مطلب: كل قرض جر نفعا فهو ربا 5/ 166:
قوله ( كل قرض جر نفعا حرام ) أي: إذا كان مشروطا كما علم مما نقله عن البحر وعن الخلاصة وفي الذخيرة وإن لم يكن النفع مشروطا في القرض فعلى قول الكرخي لا بأس به.
3. درر الحكام في شرح مجلة الأحكام، المادة: 58، التصرف على الرغبة منوط 57/1:
فالتبرع هو إعطاء الشيء غير الواجب، إعطاؤه إحسانا من المعطي.
واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی
فتوی نمبر:262
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-12-30
All Categories
- اجارہ کے مسائل (24)
- اذان کے مسائل (20)
- اعتقادی مسائل (36)
- اعتکاف کے مسائل (18)
- امانت کے مسائل (16)
- پاکی ناپاکی کےمسائل (152)
- حج کے مسائل (33)
- حدود کے مسائل (19)
- حظر واباحت کے مسائل (102)
- خرید وفروخت کے مسائل (71)
- خلع کے مسائل (16)
- دعوی کے مسائل (19)
- ذبائح اور شکار کے مسائل (17)
- رضاعت کے مسائل (17)
- روزے مسائل (44)
- زکوٰۃ کے مسائل (87)
- ضمان کے مسائل (17)
- طلاق کے مسائل (76)
- عمرہ کے مسائل (17)
- قربانی کے مسائل (18)
- قرض کے مسائل (24)
- قسم اور منت کے مسائل (25)
- قمار اور ربوا کے مسائل (20)
- كتاب الكراهية (51)
- کفارہ کے مسائل (22)
- مشترک کاروبار کے مسائل (17)
- میراث اور وصیت کے مسائل (18)
- نان نفقہ کے مسائل (19)
- نکاح کے مسائل (82)
- نماز کے مسائل (154)
- ہبہ کے مسائل (20)
- وقف کے مسائل (29)
- وکالت کے مسائل (20)