Notice: Function _load_textdomain_just_in_time was called incorrectly. Translation loading for the paroti domain was triggered too early. This is usually an indicator for some code in the plugin or theme running too early. Translations should be loaded at the init action or later. Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 6.7.0.) in /home/darulift/public_html/wp-includes/functions.php on line 6121
@123ایزی پیسہ کے ذریعے رقم حاصل کرنے پر اجرت لینا - Darul Ifta Mardan
  • muftisaniihsan@google.com
  • 03118160190
0
Your Cart
No products in the cart.

@123ایزی پیسہ کے ذریعے رقم حاصل کرنے پر اجرت لینا

سوال:
ہم ایزی پیسہ کا کاروبار کرتے ہیں ہمارے پاس گاہک آتے ہیں، تو ہم منی ٹرانسفر کرتے ہیں، اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ گاہک نے اگر ہزار(1000) روپے نکالنے ہو تو کمپنی کی طرف سے بیس (20) روپے سروس چارجز وصول کرتے ہیں، جس میں چار(4) روپے ہمیں ملتے ہیں اور اگر ہم اس ٹرانزیکشن کو اپنے اکاؤنٹ میں منتقل کرلے، تو اس سے وہ بیس (20) روپے پورے کے پورے ہمیں ملتے ہیں، لیکن اگر بعد میں ہمیں ضرورت ہوئی ان پیسوں کی تو اگر وہ ہم نکالیں گے تو بیس (20) روپے ہم نے دینے ہوتے ہیں، اب اس صورت میں یہ بیس (20) روپے جو ہم وصول کرتے ہیں ہمارے لیے اس کا لینا جائز ہے یا نہیں، اور مزید یہ کہ بیس (20) روپے ہم دوسرے طریقے سے بھی استعمال کرسکتے ہیں، مثلا ایزی لوڈ وغیرہ کے ذریعے؟
جواب:
مذکورہ صورت میں دکاندار کا گاہک کے اکاؤنٹ میں موجود رقم کو اس کے اکاؤنٹ سے نکال کر اپنے اکاؤنٹ میں منتقل کرنے اور گاہک سے چارجز فیس خود وصول کرنے میں کمپنی کے کسی قانون کی خلاف ورزی نہ ہو، تو دکاندار کے لیے اس طرح کرنا جائز ہے، ورنہ جائز نہیں ہے۔

حوالہ جات:
لما في رد المحتار لابن عابدين،كتاب الإجارة، مطلب في أجرة الدلال 6/ 63:
قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا، فذاك حرام عليهم.
الفتاوی الھندية للجنة العلماء، كتاب الحدود، الباب السابع في حد القذف والتعزير، فصل في التعزير 2/ 167:
لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي، كذا في البحر الرائق.
وفي بدائع الصنائع للكاساني، كتاب الوكالة، فصل في بيان حكم التوكيل 6/ 27:
(وأما) الوكيل بالبيع فالتوكيل بالبيع لا يخلو إما أن يكون مطلقا، وإما أن يكون مقيدا، فإن كان مقيدا يراعى فيه القيد بالإجماع.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:204
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-12-15

image_pdfimage_printپرنٹ کریں