Notice: Function _load_textdomain_just_in_time was called incorrectly. Translation loading for the paroti domain was triggered too early. This is usually an indicator for some code in the plugin or theme running too early. Translations should be loaded at the init action or later. Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 6.7.0.) in /home/darulift/public_html/wp-includes/functions.php on line 6121
@123 حرام مال والے سے قرض لینا - Darul Ifta Mardan
  • muftisaniihsan@google.com
  • 03118160190
0
Your Cart
No products in the cart.

@123 حرام مال والے سے قرض لینا

سوال:
ایک غریب شخص جس کے پاس پیسے بالکل نہیں ہے، اور اپنا مختصر سا کاروبار شروع کرنا چاہتا ہے، مگر کوئی اس کو قرض دینے کے لیے تیار نہیں ہے، اور ایک شخص جس کا سارا مال حرام ہے، وہ قرضہ دینے کے لیے تیار ہے، تو یہ شخص اس سے قرض لے سکتا ہے؟ یا کوئی اور طریقہ ہے جس کے ذریعے غریب شخص حرام مال والے کے مال کو استعمال کرسکے؟
جواب:
جس شخص کی آمدنی یقینی طور پر حرام ہو اور قرض لینے والے کو معلوم بھی ہو کہ اس کی آمدنی حرام ہے تو اس کو چاہیے کہ حتی الوسع حلال قرض لینے کا بندوبست کرے، تاہم شدید ضرورت ہو، اور حلال آمدنی والے سے قرض نہ مل رہا ہو تو مجبوری میں اس سے قرض لینے کی گنجائش ہے۔

حوالہ جات:
لما في الأشباه والنظائر للسيوطي، القاعدة الثانية: ما أبيح للضرورة يقدر بقدرها  1/ 84:
الضروريات تبيح المحظورات بشرط عدم نقصانها عنها ،ومن ثم جاز أكل الميتة عند المخمصة، وإساغة اللقمة بالخمر، والتلفظ بكلمة الكفر للإكراه، وكذا إتلاف المال، وأخذ مال الممتنع من أداء الدين بغير إذنه، ودفع الصائل، ولو أدى إلى قتله.
وفي الدر المختار للحصكفي، كتاب الصلاة 3/ 532:
الضرورات تبيح المحظورات.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:188
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-12-13

 

image_pdfimage_printپرنٹ کریں