@123لاپتہ زوج کے بیوی کے لیے نکاح کا حکم
سوال:
میرے والدصاحب (2004) کو نوکری کے سلسلے میں اپنے گھر سے نکلا، اس کے بعد گھر واپس نہیں آئے، ہم نے پولیس والوں کو اطلاع دی، تو پولیس والوں نے اپنی انکوائری شروع کی، ایک سال کے بعد پولیس والوں نے لاپتہ افراد کی رپورٹ جاری کردیا، تو آیا میری والدہ اب دوسری جگہ اپنی عقد کراسکتی ہے یا نہیں؟
جواب:
واضح رہے کہ لاپتہ شخص کی بیوی اپنا مقدمہ عدالت میں پیش کرے، اور گواہوں کے ذریعہ ثابت کرے کہ میرا نکاح فلاں شخص کے ساتھ ہوا تھا، پھر گواہوں کے ذریعے اس کا لاپتہ ہونا ثابت کر دے، اس کے بعد قاضی اس کی تفتیش وتلاش کرے، اور پوری کوشش کے باوجود پتہ چلنے سے مایوسی ہوجائے، تو قاضی عورت کو چار سال تک مزید انتظار کا حکم دے، پھر چار سال گزرنے کے بعد اگر لاپتہ شخص کا پتہ نہ چلے، تو عورت قاضی کے پاس جاکر دوبارہ درخواست کرے، جس پر قاضی اس کے مردہ ہونے کا فیصلہ سنادے، اس فیصلہ کے بعد یہ عورت چار ماہ دس دن عدت گزار کر دوسری جگہ نکاح کرنے کا اختیار ہو گا، اور اگر عورت عصمت کو خطرہ لاحق ہونے کا اندیشہ ظاہر کرے، تو ایسی صورت میں چار سال کی بجائے ایک سال انتظار کا حکم دیا جا سکتا ہے، اگرچہ یہ ایک سال مقدمہ دائر کرنے سے شمار ہوگا، یا زنا میں مبتلا ہونے کا خطرہ نہ ہو، لیکن مفقود کا اتنا مال نہ ہو، جو ان چار سال میں بیوی کے نان نفقہ کے لیے کافی ہو، تو اس صورت میں نان نفقہ دینے کے بغیر کم از کم ایک ماہ گزرا ہو، تو قاضی نکاح ختم کر سکتا ہے، اوران آخری دو صورتوں میں یہ عورت عدت کے بجائے عدت طلاق گزاری گی، جو قاضی کے فیصلہ کے وقت سے شمار ہو گا۔
حوالہ جات:
لما في البحر الرائق لابن نجيم، كتاب المفقود، كان مع المفقود وارث يحجب به 5/ 178:
(لا يفرق بينه وبينها) أي: وبين زوجته؛ لقوله عليه السلام في امرأة المفقود، إنها امرأته حتى يأتيها البيان، وقول علي رضي الله عنه فيها، هي امرأة ابتليت، فلتصبر حتى يتبين موت، أو طلاق.
وفي منح الجليل لمحمد بن أحمد المالكي، باب في النفقة بالنكاح والملك والقرابة 4/ 406:
ثم بعد التلوم وعدم وجدان النفقة والكسوة طلق … وإن كان غائبا … يعني أن الغائب البعيد الغيبة، وليس له مال، أو له مال، لا يمكنها الوصول إليه إلا بمشقة، حكمه حكم العاجز الحاضر.
وفي حيلة ناجزة لأشرف علي تهانوي ص:124:
وهذا بعد التلوم بنحو شهرا وباجتهاده عند المالكية وفورا، أو متراخيا عند الحنابلة، وبعد ثلاثة أيام عند الشافعية، وإن كان لخوفها الزناوتضررها بعدم الوطي
والعنا مع وجود النفقة والغنا، فبعد صبرها سنة، فاكثر عند جل المالكية، وبعد ستت اشهر عند الحنابلة.
واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی
فتوی نمبر:196
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-12-13
All Categories
- اجارہ کے مسائل (24)
- اذان کے مسائل (20)
- اعتقادی مسائل (36)
- اعتکاف کے مسائل (18)
- امانت کے مسائل (16)
- پاکی ناپاکی کےمسائل (152)
- حج کے مسائل (33)
- حدود کے مسائل (19)
- حظر واباحت کے مسائل (102)
- خرید وفروخت کے مسائل (71)
- خلع کے مسائل (16)
- دعوی کے مسائل (19)
- ذبائح اور شکار کے مسائل (17)
- رضاعت کے مسائل (17)
- روزے مسائل (44)
- زکوٰۃ کے مسائل (87)
- ضمان کے مسائل (17)
- طلاق کے مسائل (76)
- عمرہ کے مسائل (17)
- قربانی کے مسائل (18)
- قرض کے مسائل (24)
- قسم اور منت کے مسائل (25)
- قمار اور ربوا کے مسائل (20)
- كتاب الكراهية (51)
- کفارہ کے مسائل (22)
- مشترک کاروبار کے مسائل (17)
- میراث اور وصیت کے مسائل (18)
- نان نفقہ کے مسائل (19)
- نکاح کے مسائل (82)
- نماز کے مسائل (154)
- ہبہ کے مسائل (20)
- وقف کے مسائل (29)
- وکالت کے مسائل (20)