@123اسقاط ِ حمل کے بعدآنے والے خون کا حکم
سوال:
کسی عورت کا اسقاط حمل چار ماہ سے قبل ہو یا بعد ہو، تو دونوں صورتوں میں جاری ہونے والے خون کا کیا حکم ہوگا؟
جواب:
مذكوره صورت میں اگر اس حمل پر چار ماہ گزرے ہوں، یا اس حمل کے بعض اعضاء میں سے کسی عضو مثلا: ہاتھ پیر وغیرہ کی بناوٹ ظاہر ہوچکی ہو، تو اس کے بعد آنے والا خون نفاس کا خون شمار ہوگا، اور اگر اس حمل کے اعضاء میں سے کسی بھی عضو کی بناوٹ ظاہر نہ ہوئی ہو، تو حمل ضائع ہونے کے بعد آنے والا خون نفاس کا نہ ہوگا، بلکہ یہ آنے والا خون اگر کم از کم تین دن تک آیا ہو، اور اس سے پہلے پندرہ دن پاکی کا دورانیہ گزرا ہو، تو یہ حیض کا خون ہے، اور اگر تین دن سے کم خون آیا یا ابھی تک پاکی کے پندرہ دن نہ گزرے ہوں تو یہ خون حیض کا شمار نہ ہوگا، بلکہ استحاضہ ہوگا، اور ایسی صورت میں ہر نماز کا وقت آنے پر نیا وضو کرکے نماز پڑھی جائے گی۔
حوالہ جات:
لما في الدر المختار للحصكفي، كتاب الطهارة، باب الحيض 1/ 549:
(وسقط) مثلث السين، أي: مسقوط (ظهر بعض خلقه كيد، أورجلٍ) أو أصبع، أو ظفر، أو شعر، ولا يستبين خلقه إلا بعد مائة وعشرين يوما (ولد) حكما، (فتصير) المرأة (به نفساء، والأمة أم ولد، ويحنث به) في تعليقه (وتقضي به العدة)، فإن لم يظهر له شيء، فليس بشيء، والمرئي حيض إن دام ثلاثا، وتقدمه طهر تام، وإلا استحاضة.
وفي تبيين الحقائق للزيلعي، كتاب الطهارة، باب الحيض 1/ 187:
(والسقط إن ظهر بعض خلقه ولد) وذلك مثل: يد، أو رجلٍ، أو أصبع، أو شعر، فتكون به نفساء، وتنقضي به العدة، وتصير الأمة أم ولد به، ويحنث به لو كان علق يمينه بالولادة.
وفي الفتاوى التاتارخانية لعالم بن علاء الهندي، كتاب الطهارة، الفصل التاسع في الحيض 1/ 542:
المرأة إذا أسقطت سقطا، فإن استبان شيء من خلقه، فهي نفساء في ما رأت الدم، وتقضي به العدة، وتصير الجارية أم ولد إذا كان العلوق من المولى، فإن لم يستبن من خلقه، فلا نفاس لها، ولكن إذا كان أمكن جعل المرئي من الدم حيضا بأن تقدمه طهر تام، ووافق أيام عادتها، يجعل حيضا؛ لعلة أنه دم خارج عن الرحم، وإن لم يمكن أن يجعل حيضا بأن لم يتقدمه طهر تام، فهو استحاضة.
وفي المحيط البرهاني لابن مازة الحنفي، كتاب الطهارة، الفصل التاسع في الحيض 1/ 470:
المرأة إذا أسقطت سقطا، فإن لم يستبن شيء من خلقه، فلا نفاس لها، ولكن إن أمكن جعل المرئي من الدم حيضا، بأن تقدمه طهر تام، يجعل حيضا؛ لعلة أنه دم خارج عن الرحم، وإن لم يمكن جعله حيضا، بأن لم يتقدمه طهر تام، فهواستحاضة.
واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی
فتوی نمبر:137
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-10-12
All Categories
- اجارہ کے مسائل (24)
- اذان کے مسائل (20)
- اعتقادی مسائل (36)
- اعتکاف کے مسائل (18)
- امانت کے مسائل (16)
- پاکی ناپاکی کےمسائل (152)
- حج کے مسائل (33)
- حدود کے مسائل (19)
- حظر واباحت کے مسائل (102)
- خرید وفروخت کے مسائل (71)
- خلع کے مسائل (16)
- دعوی کے مسائل (19)
- ذبائح اور شکار کے مسائل (17)
- رضاعت کے مسائل (17)
- روزے مسائل (44)
- زکوٰۃ کے مسائل (87)
- ضمان کے مسائل (17)
- طلاق کے مسائل (76)
- عمرہ کے مسائل (17)
- قربانی کے مسائل (18)
- قرض کے مسائل (24)
- قسم اور منت کے مسائل (25)
- قمار اور ربوا کے مسائل (20)
- كتاب الكراهية (51)
- کفارہ کے مسائل (22)
- مشترک کاروبار کے مسائل (17)
- میراث اور وصیت کے مسائل (18)
- نان نفقہ کے مسائل (19)
- نکاح کے مسائل (82)
- نماز کے مسائل (154)
- ہبہ کے مسائل (20)
- وقف کے مسائل (29)
- وکالت کے مسائل (20)