کیا کسی شخص کے دو وطنِ اصلی ہو سکتے ہیں؟:
سوال:
کیا کسی شخص کے بیک وقت دو(2) وطنِ اصلی ہو سکتے ہیں؟
جواب:
فقہائے کرام نے وطنِ اصلی کی تعریف یہ کی ہے کہ انسان کی جائے ولادت یا جہاں اس نے شادی کرکے رہنے کی نیت کرلی ہو یا کسی جگہ مستقل سکونت اختیار کرلی ہو، تو یہ جگہ وطنِ اصلی بن جاتی ہے، اس تعریف کی رو سے اگر کسی شخص نے دو یا دو سے زیادہ جگہوں پر مستقل رہائش کی نیت سے سکونت اختیار کی ہو، اس طور پر کہ کبھی ایک جگہ رہتا ہو اور کبھی دوسری جگہ، تو یہ دونوں جگہیں اس کے لیے وطنِ اصلی کہلائیں گی اور دونوں جگہ میں پوری نماز پڑھے گا اگرچہ پندرہ دن سے کم رہنے کی نیت کی ہو۔
حوالہ جات:
1. بدائع الصنائع للكاساني، كتاب الصلاة، الكلام في الأوطان1/ 280:
ثم الوطن الأصلي يجوز أن يكون واحدا أو أكثر من ذلك، بأن كان له أهل ودار في بلدتين أو أكثر، ولم يكن من نية أهله الخروج منها، وإن كان هو ينتقل من أهل إلى أهل في السنة، حتى إنه لو خرج مسافرا من بلدة فيها أهله، ودخل في أي بلدة من البلاد التي فيها أهله، فيصير مقيما من غير نية الإقامة.
2. الدر المختار للحصكفي مع الرد المختار، كتاب الصلاة، في الوطن الأصلي ووطن الإقامة 2/ 739:
(الوطن الأصلي) هو موطن ولادته أو تأهله أو توطنه (يبطل بمثله) إذا لم يبق له بالأول أهل، فلو بقي لم يبطل بل يتم فيهما … (والأصل إن الشيئ يبطل بمثله)
وقال ابن عابدين تحت قوله؛ (أو تأهله) أي: تزوجه. قال في شرح المنية: ولو تزوج المسافر ببلد، ولم ينو الإقامة به، فقيل: لا يصير مقيما، وقيل: يصير مقيما، وهو الأوجه، ولو كان له أهل ببلدتين، فأيتهما دخلها صار مقيما.
3. التاتارخانية لعالم بن علاء الهندي، كتاب الصلاة، فصل في صلاة السفر 2/ 510:
ومن حكم الوطن الأصلي أن ينتقض بالوطن الأصلي؛ لأنه مثله، والشيئ ينتقض بما هو مثله، حتى إذا انتقل من البلد الذي تأهل به أهله وعياله، وتوطن ببلدة أخرى بأهله وعياله، لاتبقى البلد المنتقل عنها وطنا له.
واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی
فتوی نمبر:136
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-10-11
All Categories
- اجارہ کے مسائل (24)
- اذان کے مسائل (20)
- اعتقادی مسائل (36)
- اعتکاف کے مسائل (18)
- امانت کے مسائل (16)
- پاکی ناپاکی کےمسائل (152)
- حج کے مسائل (33)
- حدود کے مسائل (19)
- حظر واباحت کے مسائل (102)
- خرید وفروخت کے مسائل (71)
- خلع کے مسائل (16)
- دعوی کے مسائل (19)
- ذبائح اور شکار کے مسائل (17)
- رضاعت کے مسائل (17)
- روزے مسائل (44)
- زکوٰۃ کے مسائل (87)
- ضمان کے مسائل (17)
- طلاق کے مسائل (76)
- عمرہ کے مسائل (17)
- قربانی کے مسائل (18)
- قرض کے مسائل (24)
- قسم اور منت کے مسائل (25)
- قمار اور ربوا کے مسائل (20)
- كتاب الكراهية (51)
- کفارہ کے مسائل (22)
- مشترک کاروبار کے مسائل (17)
- میراث اور وصیت کے مسائل (18)
- نان نفقہ کے مسائل (19)
- نکاح کے مسائل (82)
- نماز کے مسائل (154)
- ہبہ کے مسائل (20)
- وقف کے مسائل (29)
- وکالت کے مسائل (20)