Notice: Function _load_textdomain_just_in_time was called incorrectly. Translation loading for the paroti domain was triggered too early. This is usually an indicator for some code in the plugin or theme running too early. Translations should be loaded at the init action or later. Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 6.7.0.) in /home/darulift/public_html/wp-includes/functions.php on line 6121
دوائی سے بے ہوش ہونے کی حالت میں قضا شدہ نمازوں کا حکم: - Darul Ifta Mardan
  • muftisaniihsan@google.com
  • 03118160190
0
Your Cart
No products in the cart.

دوائی سے بے ہوش ہونے کی حالت میں قضا شدہ نمازوں کا حکم:

سوال:
   آج کل بعض بوتلوں میں ایسی ادویات شامل کی جاتی ہیں، جن سے مریض کو بےہوشی ہو جاتی ہے، یا آپریشن کے بعد ایسے انجکشن لگائے جاتے ہیں، جن سے چوبیس(24) گھنٹے یا اس سے زیادہ بے ہوشی ہوتی ہے، اور جب وہ انجکشن آپریشن میں لگائے جاتے ہیں، تو اس میں بے ہوشی اور زیادہ ہوتی ہے، اور چھ نمازوں یا اس سے زیادہ وقت اسی حالت میں گزر جاتا ہے، اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ اس بے ہوشی میں جو نمازیں فوت ہوئی ہیں ان کی قضا کا کیا حکم ہے؟
جواب:
   واضح رہے کہ بے ہوشی دو قسم کی ہے: ایک وہ جو مصنوعی طریقے سے ہو یعنی دوائیوں وغیرہ کے ذریعے سے، اور دوسری وہ جو من جانب اللہ غیر اختیاری ہو، پہلی قسم کی بے ہوشی کا حکم یہ ہے کہ  یہ بے  ہوشی چاہے کتنی ہی لمبی ہو، اس دوران جتنی نمازیں فوت ہو جائیں، ان تمام نمازوں کی قضا کرنا ضروری ہے، چاہے چھ نمازوں سے کم ہوں یا زیادہ، اور دوسری قسم کی بے ہوشی کا حکم یہ ہے جب وہ چوبیس (24) گھنٹوں سے زیادہ ہوجائے، یعنی اس کی وجہ سے کم از کم چھ نمازیں فوت  ہو جائیں، تو ان نمازوں کی قضا لازم نہیں، اور اگر پانچ یا ان سے کم نمازیں فوت ہو ئی ہوں، تو قضا کرنا لازم ہے، مذکورہ صورت میں چونکہ یہ بے ہوشی مصنوعی طریقے سے ہے، اس لیے اس کی وجہ سےفوت شدہ تمام نمازوں کی قضا کرنا لازمی ہے۔

حوالہ جات:
1. الدر المختار للحصكفي، كتاب الصلاة، باب: صلاة المريض 2/ 692:
   (ومن جن أو أغمي عليه) ولو بفزع من سبع، أو آدمي (يوما وليلة، قضى الخمس، وإن زاد وقت صلاة) سادسة (لا) للحرج … (زال عقله ببنج أو خمر) أو دواء (لزمه القضاء وإن طالت)؛ لأنه بصنع العباد كالنوم.
2. البحر الرائق لزين الدين ابن نجيم، كتاب الصلاة، باب صلاة المريض 2/ 208:
   قوله: (ومن جن أو أغمي عليه خمس صلوات قضى، ولو أكثر لا) … أطلق في الإغماء والجنون، فشمل ما إذا كان بسبب فزع من سبع، أو خوف من عدو، فلا يجب القضاء إذا امتد إجماعا؛ لأن الخوف بسبب ضعف قلبه، وهو مرض إلا أنه يرد عليه ما إذا زال عقله بالخمر، أو أغمي عليه بسبب شرب البنج، أو الدواء، فإنه لا يسقط عنه القضاء في الأول وإن طال اتفاقا؛ لأنه حصل بما هو معصية، فلا يوجب التخفيف، ولهذا يقع طلاقه، ولا يسقط أيضا في الثاني عند أبي حنيفة؛ لأن النص ورد في إغماء حصل بآفة سماوية، فلا يكون واردا في إغماء حصل بصنع العباد؛ لأن العذر إذا جاء من جهة غير من له الحق، لا يسقط الحق.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:124
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-10-9

image_pdfimage_printپرنٹ کریں