دوائی سے بے ہوش ہونے کی حالت میں قضا شدہ نمازوں کا حکم:
سوال:
آج کل بعض بوتلوں میں ایسی ادویات شامل کی جاتی ہیں، جن سے مریض کو بےہوشی ہو جاتی ہے، یا آپریشن کے بعد ایسے انجکشن لگائے جاتے ہیں، جن سے چوبیس(24) گھنٹے یا اس سے زیادہ بے ہوشی ہوتی ہے، اور جب وہ انجکشن آپریشن میں لگائے جاتے ہیں، تو اس میں بے ہوشی اور زیادہ ہوتی ہے، اور چھ نمازوں یا اس سے زیادہ وقت اسی حالت میں گزر جاتا ہے، اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ اس بے ہوشی میں جو نمازیں فوت ہوئی ہیں ان کی قضا کا کیا حکم ہے؟
جواب:
واضح رہے کہ بے ہوشی دو قسم کی ہے: ایک وہ جو مصنوعی طریقے سے ہو یعنی دوائیوں وغیرہ کے ذریعے سے، اور دوسری وہ جو من جانب اللہ غیر اختیاری ہو، پہلی قسم کی بے ہوشی کا حکم یہ ہے کہ یہ بے ہوشی چاہے کتنی ہی لمبی ہو، اس دوران جتنی نمازیں فوت ہو جائیں، ان تمام نمازوں کی قضا کرنا ضروری ہے، چاہے چھ نمازوں سے کم ہوں یا زیادہ، اور دوسری قسم کی بے ہوشی کا حکم یہ ہے جب وہ چوبیس (24) گھنٹوں سے زیادہ ہوجائے، یعنی اس کی وجہ سے کم از کم چھ نمازیں فوت ہو جائیں، تو ان نمازوں کی قضا لازم نہیں، اور اگر پانچ یا ان سے کم نمازیں فوت ہو ئی ہوں، تو قضا کرنا لازم ہے، مذکورہ صورت میں چونکہ یہ بے ہوشی مصنوعی طریقے سے ہے، اس لیے اس کی وجہ سےفوت شدہ تمام نمازوں کی قضا کرنا لازمی ہے۔
حوالہ جات:
1. الدر المختار للحصكفي، كتاب الصلاة، باب: صلاة المريض 2/ 692:
(ومن جن أو أغمي عليه) ولو بفزع من سبع، أو آدمي (يوما وليلة، قضى الخمس، وإن زاد وقت صلاة) سادسة (لا) للحرج … (زال عقله ببنج أو خمر) أو دواء (لزمه القضاء وإن طالت)؛ لأنه بصنع العباد كالنوم.
2. البحر الرائق لزين الدين ابن نجيم، كتاب الصلاة، باب صلاة المريض 2/ 208:
قوله: (ومن جن أو أغمي عليه خمس صلوات قضى، ولو أكثر لا) … أطلق في الإغماء والجنون، فشمل ما إذا كان بسبب فزع من سبع، أو خوف من عدو، فلا يجب القضاء إذا امتد إجماعا؛ لأن الخوف بسبب ضعف قلبه، وهو مرض إلا أنه يرد عليه ما إذا زال عقله بالخمر، أو أغمي عليه بسبب شرب البنج، أو الدواء، فإنه لا يسقط عنه القضاء في الأول وإن طال اتفاقا؛ لأنه حصل بما هو معصية، فلا يوجب التخفيف، ولهذا يقع طلاقه، ولا يسقط أيضا في الثاني عند أبي حنيفة؛ لأن النص ورد في إغماء حصل بآفة سماوية، فلا يكون واردا في إغماء حصل بصنع العباد؛ لأن العذر إذا جاء من جهة غير من له الحق، لا يسقط الحق.
واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی
فتوی نمبر:124
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-10-9
All Categories
- اجارہ کے مسائل (24)
- اذان کے مسائل (20)
- اعتقادی مسائل (36)
- اعتکاف کے مسائل (18)
- امانت کے مسائل (16)
- پاکی ناپاکی کےمسائل (152)
- حج کے مسائل (33)
- حدود کے مسائل (19)
- حظر واباحت کے مسائل (102)
- خرید وفروخت کے مسائل (71)
- خلع کے مسائل (16)
- دعوی کے مسائل (19)
- ذبائح اور شکار کے مسائل (17)
- رضاعت کے مسائل (17)
- روزے مسائل (44)
- زکوٰۃ کے مسائل (87)
- ضمان کے مسائل (17)
- طلاق کے مسائل (76)
- عمرہ کے مسائل (17)
- قربانی کے مسائل (18)
- قرض کے مسائل (24)
- قسم اور منت کے مسائل (25)
- قمار اور ربوا کے مسائل (20)
- كتاب الكراهية (51)
- کفارہ کے مسائل (22)
- مشترک کاروبار کے مسائل (17)
- میراث اور وصیت کے مسائل (18)
- نان نفقہ کے مسائل (19)
- نکاح کے مسائل (82)
- نماز کے مسائل (154)
- ہبہ کے مسائل (20)
- وقف کے مسائل (29)
- وکالت کے مسائل (20)