شعبہ جات
شعبۂ تخصص فی الافتاء
شعبہ تخصص میں یک سالہ ترتیب ہے، جس میں ہرسال چودہ (14)طلبہ کو داخلہ دیا جاتا ہے۔ شروع تین مہینے مختلف کتب کا درس دیا جاتاہے، اس کے بعد تمرین افتاء شروع ہوجاتی ہے جس کا دورانیہ تین مہینوں پر مشتمل ہوتاہے، ہرطالبعلم کے لیے کم از کم 100 فتوے لکھنا لازمی ہے، اس کے بعد دو مہینے تخریج وتحقیق کی مشق کرائی جاتی ہے۔
درسی نصاب:
1۔شرح عقود رسم المفتی لعلامہ محمد ابن عابدین شامی بتعاون اصول افتاء، از: مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم۔2۔مفتاح الفلكيات، از: مفتی ابوبکر احسان صاحب۔
3۔اصول تحقیق وقواعد الاملاء والتمرین، از: مفتی مسعود الرحمان صاحب۔
4۔ سراجی بتعاون اصول میراث، از: مفتی محمد بصر صاحب صوابوی۔
5۔ جدید معیشت وتجارت، از: مفتی محمد تقی عثمانی صاحب۔
6۔ تعارف کتب فقہ للمذاہب الاربعہ، از: مفتی ابوبکر احسان صاحب۔
7۔قواعد الفقہ، از: مفتی محمد بصر صاحب۔
8۔ معروف مذاہب اور فرق باطلہ وضالہ کا مختصر تعارف، از: مفتی مسعود الرحمان صاحب ۔
فتوی نویسی کے اصول وآداب:
- جواب لكھنے سے پہلے مندرجہ ذیل باتوں كا خیال ركھنا ہے:
- سب سے پہلے سوال كو غور اور اطمینان سے پڑھنا، سوال كا منشا اور مقصد سمجھنا۔
- اگر سوال میں كوئی بات ادھوری ہو تو تنقیح اور وضاحت طلب كركے تنقیح اور جوابِ تنقیح دونوں كوسوال كے آخر میں درج كرنا۔
- سوال میراث سے متعلق ہو تو میت كے تمام ورثاء كا تذكرہ سوال میں ہونا ضروری ہے۔
- حتی الامكان تحریری جواب دینا بالخصوص میراث،نكاح اور معاملاتِ جدیدہ سے متعلق ۔
- اگر سائل خود سوال لكھ سكتا ہے،تو اس سے سوال لكھوانا، ورنہ اس کے سامنے لکھ کر اسے زبانی دہرانا۔
- اگر كوئی مسئلہ فریقین سے متعلق ہو،تو سوال میں دونوں كا مدعیٰ ذكر كرنا اور صرف ایک فریق کی بات پر اکتفا نہ کرنا۔
- ایك ہی استفتاء میں تین سے زائد جزئیات كا جواب نہ دینا۔
- متعلقہ استاد کو اطلاع دیے بغیر مستفتی سے خود سوال وصول نہ کرنا۔
- اگر كوئی آسان مسئلہ ہو تو بھی جواب دینے میں جلدی نہ كرنا، بلكہ اس سے مناسب وقت لے كركتابوں كی مراجعت كے بعد جواب دینا۔
- سوال كے آخر میں مستفتی كا نام اور مقام بھی لكھنا اور استفتاء پر فون نمبر بھی لکھنا۔
- مستفتی كورسید دیے بغیر سوال وصول نہ كرنا،اور رسید میں تاریخِ وصولی اور تاریخِ واپسی،مستفتی كا نام اور سوال كا مختصر عنوان لكھنا،اور كم از كم تین دن كا وقت دینا، رسید پر استاد کا نمبر لکھنا ساتھ مجیب کا نام بھی لکھنا۔
- مقررہ مدت كے اندر اندر جواب حل كرنا، متعلقہ استاد کی اجازت سے عذر کی صورت میں دوسرے ساتھی کے حوالہ کرنا۔
- سوال اگر باہر كا ہو،تو رجسٹر اندراج میں سوال كے اندراج كئے بغیر وصول نہ كرنا۔ البتہ عنوان رجسٹر میں اس وقت تک نہ لکھنا جب تک جواب کو حتمی شکل نہ دی جائے۔
- كتاب سے استفادہ كرنے كے بعد فورًا اپنی جگہ پر ركھنا تاكہ دیگر ساتھیوں كو پریشانی نہ ہو۔ نیز مدرسہ کی کتاب گھر لے جانے کی بالکل اجازت نہیں۔
- اگر كسی ساتھی كو ایك موضوع سے متعلق زیادہ سوالات ملے ہو ں اور دوسرا موضوع تشنہ ہو،تو بروقت اساتذہ كو اطلاع دینا۔
- اپنے محلوں سے سوالات لانا،بہتر یہ ہے كہ ہرساتھی كے پاس ڈائری ہو اور اس میں سوال لکھ لیا کریں اور متعلقہ استاذ کے حوالہ کیا جائے۔
- استاذ كی اجازت كے بغیر سوالات آپس میں ایك دوسرے سے بدلنا منع ہے،بلكہ استاذ كی طرف سے جو سوال جس طالب علم كو ملے وہی طالب علم اس سوال كو حل كرے
سوال حل كرتے وقت:
- جواب كے شروع میں الجواب حامدًا ومصليًا لكھنا۔
- جواب لكھنے سے پہلے اللہ تعالی كی طرف رجوع كرنا اور جواب میں حق بات لكھنے كی اللہ تعالی سے دعا مانگنا،خصوصًا یہ دعا پڑھنا: «رب اشرح لي صدري إلخ»۔
- سوال پڑھنے كے بعد پہلے آپ خود اس كا جواب سوچیں كہ اس كا جواب كیا ہوسكتا ہے،اگر سوال كا كوئی جواب ذہن میں آجائے تو اس كو رف میں محفوظ کریں۔اس كے بعد كتابوں كی طرف رجوع كریں،اور زیادہ سے زیادہ فقہ كی كتابوں میں اس كو دیكھیں،صرف ایك كتاب دیكھنے پر اكتفا نہ كریں۔
- اگر سوال کسی تنازع سے متعلق ہو تو جواب کے شروع میں لکھنا کہ” اگر سوال میں ذکر کردہ صورتِ حال واقعتاً درست ہے تو اس کا حکم یہ ہے“۔
- كئی كتابوں كو دیكھنے كے بعد جس كتاب كی عبارت زیادہ جامع اور واضح ہو،مستند اور معتمد ہو،جواب كے لیے اس كا انتخاب كرنا،اس كے بعد اس عبارت كی روشنی میں سوال كا جواب لکھنا۔
- ابتدائی دس استفتاءات کی اصلاحِ اول اپنے ہاتھوں سے صاف اور خوشخط لکھنا اور اساتذہ کی طرف سے مکمل تصویب کے بعد لیپ ٹاپ سے لکھ کر پرنٹ نکالنا۔
- اصلاحِ دوم کی صورت میں خوشخط لکھنے کے بعد پہلی والی اصلاحی کاغذ بھی ساتھ لانا۔
- پرنٹ نکالنے سے پہلے متعلقہ استاذ کو لیپ ٹاپ میں دکھانا تاکہ پرنٹ نکالنے سے پہلے اس میں سے غلطیاں دور ہوجائیں۔
- عربی اور اردو كے مشكل اور مصطلح الفاظ استعمال نہ كرنا، مثلاً مشتری، مبیع،طلاقِ مغلظ، ثمن، خیارِ شرط وغیرہ، بلكہ عام فہم آسان اردو میں جواب دینا۔
- كاغذ كے دونوں طرف حاشیہ چھوڑنا، عربی عبارت اقتباس كی شكل میں لكھنا۔
- كم از كم تین یا چار عربی فتاویٰ جات (فتاوی شامی،الہندیہ،البحرالرائق،بدائع الصنائع،تبیین الحقائق،فتح القدیروغیرہ) كا حوالہ دے کر عبارت نقل کرنا۔
- سب سے پہلے قرآن کریم کی آیت، پھر متعلقہ حدیث اس کے بعد فقہی کتب کا حوالہ دینا لیکن حدیث کا حوالہ دیتے ہوئے کسی شرح حدیث کی عبارت بھی نقل کرنا جس سے جواب کے مطابق استدلال موجود ہو،نیز اگر اس سے احناف کا مسلک ثابت کرنا ہوتو شارح حدیث بھی حنفی المسلک ہونا چاہیے جیسے عمدۃ القاری، مرقاۃ المفاتیح، تکملہ فتح الملہم، اعلاء السنن، بذل المجہود وغیرہ۔
- جواب لكھتے وقت اردو فتاوی سے مکمل اجتناب كرنا، البتہ جواب مكمل ہونے كے بعد مزید تائید كےلیے دستخط کروانے سے پہلے اردو فتاویٰ جات دیكھنا اور ان میں سے کسی مناسب فتاویٰ کا حوالہ دینا، یعنی امداد الفتاوی، امداد الاحكام، فتاویٰ دار العلوم دیوبند، فتاویٰ عثمانی وغیرہ۔
- صرف سوال میں ذكر شدہ مسئلہ كاجواب دینا،اِدھر اُدھر كی لایعنی باتوں سے گریز كرنا۔ کبھی مستفتی سوال کے ساتھ پورا واقعہ ذکر کرتا ہے، بنیادی بات مختصر ہوتی ہے صرف اس کا جواب دینا۔اختلافی مسائل سے گریز کرنا۔
- جس كاغذ پر سوال موجود ہوحتی الامكان اسی پر جواب تحریر كرنااورجب صفحہ ختم ہوجائے تو آخر میں (جاری ہے۔۔۔) لكھنا،اور اگر اس صفحہ پر جگہ نہ ہو،تو دوسرے صفحہ پر جواب لكھنا اور اس صفحے پر سوال كے بعد یہ لكھنا(جواب پشت پر ملاحظہ ہوں)۔
- حكم لگاتے ہوئے سخت الفاظ مثلًا: ناجائز ،مكروہ كی جگہ حرام كا لفظ ،فاسق یا گمراہ كی جگہ كافر كا لفظ استعمال كرنے سے گریز كرنا، اسی طرح شخصیات پر حکم لگانے سے اجتناب کرنا، نیز کسی خاص ادارے یا مکتبِ فکر کا نام نہ لینا،اس طرح بعض جگہوں پر جائز وناجائز کی جگہ موقع ومحل کے لحاظ سے”درست ہے، اور ”درست نہیں“ کے الفاظ بھی استعمال کرنا۔
- جواب اپنے الفاظ میں لكھنا ، کسی اردو فتاوی وغیرہ سے نقل نہ کرنا۔
- عام آدمی كے لیے مختصر اور عام فہم جواب لكھنا، البتہ كوئی عالم اور سمجھدار آدمی ہو،توزیادہ دلائل دینے میں بھی مضائقہ نہیں۔
- سب سے پہلے اردو عبارت پھر عربی حوالہ جات اس كے بعد آخر میں صفحہ کے بائیں طرف (والله أعلم بالصواب) اس كے بعد اپنا نام مدرسہ كا نام اور اس كے نیچے تاریخ لكھنا۔
- اپنے نام كے ساتھ كوئی لقب مثلًا: حقانی،عثمانی ،فاروقی، مردانی، افغانی ،دیوبندی،حنفی وغیرہ نہ لكھنا۔
- اساتذہ كے دستخط اور مہر لگانے كے لیے مناسب جگہ چھوڑنا۔
- اگر ایک سوال کے کئی اجزاء ہوں توجواب شق وار دیتے ہوئے ہر شق کے لیے الف:۔۔۔ب:۔۔۔وغیرہ لکھنا۔
- سوال میں مقصودی بات كو انڈر لائن كرنا۔
- تصحیح سے پہلے جواب رف كاغذ پر لكھنا۔
جواب لكھنے كے بعد:
- پہلی مرتبہ جواب لكھتے وقت صفحہ كے اوپر والے كونے میں پینسل سے اپنا نام اور ”اصلاحِ اول“كے الفاظ لكھنا،تمام اساتذہ كی طرف سے تصحیح ہونے كے بعد نیٹ كرتے وقت ”اصلاحِ ثانی“ كے الفاظ لكھنا۔
- ایک استاد کی طرف سے تصحیح کے بعد اسی تصحیح کو دوسرے استاد کو دکھانا یعنی دوسرے استاد کو دکھانے سے پہلے اس کو نیٹ نہ کرنا، مثلا اصلاح اول سب سے پہلے مولوی صہیب اور مولوی عثمان صاحبان کو دکھانا اور اس کے بعد مفتی اویس احمد صاحب پھر مفتی نور بادشاہ صاحب کو دکھانا پھر مفتی ابو بکر احسان صاحب کو دکھانا ، ان تمام سے تصحیح کے بعد لیپ ٹاپ میں حتمی شکل دینا، لیکن پرنٹ نکالنے سے پہلے مفتی اویس احمد صاحب یا مولوی عثمان صاحب میں سے کسی ایک دکھانا ،پھر مفتی ابوبکر صاحب کو دکھا کر پرنٹ نکالنا۔
- سوال كا عنوان مختصرًا اوپر لكھنا۔
- دستخط اور مہر لگانےكے بعد سوال اگر باہر كا ہے تو اس كے دو عدد فوٹو كاپی كركے اصل فتوی مستفتی كے حوالہ كرنا،اور ایك فوٹو كاپی اپنے پاس اور دوسری مدرسہ میں جمع كرانا، اپنے لیے فوٹو كاپی اپنے كاغذ سے اور مدرسہ كے لیے فوٹو كاپی مدرسہ كے كاغذ سے نکالنا، اور اگر سوال مدرسہ سے ملا ہے تو پھر اصل اپنے پاس ركھے اور مدرسہ میں ایک عدد فوٹو کاپی جمع کرانا۔ نیز ورڈ فائل ہر مہینہ مولوی صہیب صاحب کے پاس جمع كرانا۔
- مسئلہ مکمل ہونے کے بعدرجسٹر اندراج میں عنوان لكھنا۔
- ایك بنڈل صفحات مشتركہ پیسوں سے خریدكر مساوی طور پر آپس میں تقسیم كرنا۔
- اگر كوئی مشكل سوال دو دن میں حل نہ ہوسكا،تو تیسرے دن اگلا سوال وصول كرنا اور ساتھ میں مشكل سوال بھی حل كرنے كی كوشش كرنا، اگر سوال كسی بھی طرح سے حل نہ ہوسكا،تومتعلقہ استاذ سے مشورہ کرنا۔
- پرنٹ نکالنے کے بعد کمپوز شدہ پرنٹ کے ساتھ اصلاح شدہ کاغذ ساتھ لانا ۔
- جواب رف كاغذ پر لكھ كر اس كو پیپر پن كےذریعہ سوال كے ساتھ جوڑنا،اور نیٹ كرنے كے بعد اگر ضرورت ہو،تو سٹپل لگانا۔
- ضرورت كی اشیاء ہر ایك اپنے لیے خود خریدیں، دوسرے سے نہ مانگیں۔مثلا پنسل، وائٹنر، فٹہ ، بال پوائنٹ، ربڑ وغیرہ۔
- ایک اجتماعی سٹپلراور اس کے ساتھ سٹپلر پن کا ڈبہ اپنی کلاس کے لیےخریدنا۔
- مدرسہ کی طرف سے مقررہ مدت تک کم از کم 100 فتاوی جات مکمل کرنا ضروری ہے ورنہ سالانہ پروگرام میں سند دینے سے اساتذہ معذرت خواہ ہوں گے۔
- تمام جوابات مفتی مسعود الرحمٰن صاحب کو بھی دکھانا، اگر کسی جواب سے متعلق ان کی رائے اس سے مختلف ہو جو جواب میں لکھا گیا ہے تو دیگر اساتذہ سے بھی دوبارہ مشورہ کرنا۔
- تمرین شروع ہونے کے بعد صبح آتے ہی اپنا موبائل مفتی اویس صاحب کے پاس جمع کرانا، اور چھٹی کے وقت وصول کرنا۔
- پرنٹر کی مرمت ، اس میں سیاہی ڈلوانااوراس کی حفاظت کرنا طلبائے تخصص کی ذمہ داری ہے۔
شعبۂ تصنیف وتحقیق
شعبہ تصنیف وتحقیق میں ہرسال سات علمائے کرام موجود ہوتے ہیں، جن میں سے بعض صرف تخریج وتحقیق کے عمل سے وابستہ ہیں اور بعض درسی خدمات بھی انجام دیتے ہیں ۔
الحمد للہ اس وقت تک” تحفۃ الحجاج اردو“اور ”غنیۃ الناسک فی بغیۃ المناسک عربی“ پر تخریج کا کام مکمل ہوچکاہے اور درس ترمذی وتقریر ترمذی جو کہ درسی تقاریر ہیں استاد محترم مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کی ان کی تخریج وتحقیق کا کام بھی انہی کی سرپرستی میں پائے تکمیل کو پہنچنے والا ہے ، اکثر جلدیں چھپ چکی ہیں اور بعض عنقریب چھپ جائیں گی۔
تحقیق وتخریج کے اصول:
تفسیر سے متعلق:
- قرآنی آیت کا حوالہ اس طرح دیا جائے۔ مثلاً : النساء – 4/1۔
- اگر تفسیر کا حوالہ دینا ہو تو تفسیر کا نام، مصنف کا نام، پھر جلد اور صفحہ نمبر لکھنا۔ مثلاً أنوار التنزیل وأسرار التاویل للبيضاوي يا لناصر الدين البيضاوي 2/12۔
- اگر آیت اوپر موجود نہ ہو بلکہ آیت کا ذکر بطور استشہاد ہو تو بریکٹ میں آیت لکھ کر اس کا حوالہ دینا ۔ مثال: {لَا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا} البقرة: 2/286۔
- تفسیر کا حوالہ تفسیر سے دینا، شرح الحدیث کا حوالہ شروح الحدیث سے دینا، فقہ کا حوالہ معتبر کتب فقہیہ سے دینا، لغت کا حوالہ کتب لغت سے دینا، راوی سے متعلق بحث اور تراجم الاعلام کا حوالہ کتب رجال سے دینا اور ہر فن میں مصادر اصلیہ (پہلے لکھی ہوئی کتاب) سے حوالہ دینا حتی الامکان ثانوی مصادر سے نہ دینا۔
حدیث سے متعلق:
- قرآنی آیت کا حوالہ اس طرح دیا جائے۔ مثلاً : النساء – 4/1۔
- حدیث کا حوالہ دیتے ہوئے کتاب کا نام، کتاب، باب یا فصل اور رقم الحدیث لکھنا۔ جلد اور صفحہ نمبر نہ لکھنا۔
- شروح الحدیث میں کتاب کا نام، کتاب، باب یا فصل اور تحت الرقم لکھنا۔جلد نمبر صفحہ نمبر بھی لکھنا۔
- جس جگہ حدیث کی عبارت اوپر موجود ہو لیکن اس کا راوی مذکور نہ ہو وہاں اس کا نیچے حاشیہ میں راوی ذکر کرنا۔ مثال: نضر الله عبدا سمع مقالتي إلخ رواه الشافعي، والبيهقي في المدخل، اس کے حوالہ میں مسند الشافعي، کتاب…، باب…، رقم:…. عن فلان لکھنا۔
- حدیث کی تخریج میں اگر اوپر پورا یا اکثر متن موجود ہو، تو أخرجه لکھنا اور اگر متن کا کچھ حصہ ہو، تو جزء من حدیث أخرجه۔۔۔ لکھنا، اگر صحاح ستہ میں سے کوئی کتاب ہے، تو کتاب کا نام لکھنا ضروری نہیں اور اگر ان کے علاوہ ہو تو یوں لکھا جائے: أخرجه الدار قطني في سننه۔
- ہر باب کے شروع میں حدیثِ باب ذکر کرنا ۔
فقہ سے متعلق:
- عبارت لکھتے ہوئے اس سے پہلے (ونصه) لكھنا اور عبارت کے دونوں جانب علاماتِ تنصیص(« ») لگانا۔
احناف کے مذہب کو بیان کرتے ہوئے جہاں امام ابوحنیفہ اور صاحبین کا اختلاف ہو، وہاں مفتیٰ بہٖ قول کی نشاندہی کرنا۔ - ائمۂ ثلاثہ کا مذہب ان کی کتب سے نقل کرنا، جس جگہ جتنے مذاہب کا تذکرہ ہو ایک ہی حاشیہ میں ان سب کا نمبر وار حوالہ دینا مثلاً: المدونة الكبرى للإمام مالك، ونصه:…… وفي الأم للشافعي ونصه:……. وفي المغني لابن قدامة الحنبلي، كتاب….، باب….. ۱/۲، ونصه: ………
- ائمۂ ثلاثہ یا ائمۂ اربعہ کے درمیان متفق علیہ مسئلہ میں مسالک کے حوالہ جات میں پہلے حنفیہ، پھر مالکیہ، پھر شافعیہ اور پھر حنابلہ کا حوالہ دینا۔
- ائمۂ ثلاثہ کے مسلک کو بیان کرتے ہوئے ہر ایک کے مذہب کی کتاب کے ساتھ مصنف کا نام اور مسلک کا تذکرہ کرنا۔
- مسئلہ کا حوالہ دیتے ہوئے کتاب کا نام، کتاب اور باب یا فصل ذکر کرنا، پھر شاملہ کے مطابق جلد نمبر اور صفحہ نمبر لکھنا۔
- حوالہ میں عبارت نقل کرتےہوئے اتنی عبارت نقل کرنا ضروری ہے کہ اس سے اوپر والی بات واضح ہوسکے مثلاً: اوپر بات چل رہی ہے وضوء قبل النوم کے استحباب کی تو صرف (هو مستحب) کافی نہیں بلکہ اس سے پہلے ”وضوء قبل النوم“ کا لفظ بھی آنا چاہیے۔
- کسی کتاب کا حوالہ دیتے ہوئے مصنف کا پورا نام ذکر نہ کرنا بلکہ مشہور لقب یا نسبت پر اکتفاء کرنا اگر موجود ہو ورنہ نام لکھنا۔ مثلاً : نیل الأوطار للشوکاني وغیرہ۔
فونٹس سے متعلق:
- اردو کے لیے پیامی نستعلیق(Payami Nastaleeq) فونٹس استعمال کرنا۔ح
- دیث کے لیے عثمان طہ نسخ (KFGQPC Uthman Taha Naskh) فونٹس استعمال کرنا۔
- متن اور اردو کے درمیان آنے والی عربی عبارات کے لیے حدیث لائٹ(Hadith light)فونٹس استعمال کرنا۔
- حاشیہ میں تخریج کے لیے صرف حدیث لائٹ(Hadith light) فونٹس استعمال کرنا۔
- ہندسوں کے لیے اردو رسم الخط استعمال کرنا۔
- ایم ایس ورڈ میں سٹائل میں لگے ہوئے کمانڈز کے مطابق کام کرنا۔
- حوالہ نمبر ڈیش(۔) اور کامہ (،) کے بعد لگانا۔ اور سپیس نہ دینا۔
- اردو کتاب کا حوالہ دیتے ہوئے اردو فونٹس استعمال کرنا اور عنوان کا تذکرہ کرنا۔ مثلاً: امداد الفتاویٰ، کتاب، باب، عنوان: 2/3۔
- جہاں کسی کتاب کی عبارت ختم ہورہی ہو ،وہاں فل سٹاف یعنی ڈاٹ لگانا۔
- حاشیہ میں عام عبارات بغیر اعراب کے نقل کرنا، البتہ قرآن کی آیت اعراب کے ساتھ نقل کرنا۔
- اردو عبارت میں جہاں عربی لفظ آجائے،اس کو عریبک کی بورڈ (Arabic keyboard) میں لکھ کر حدیث لائٹ (Hadith light) میں ڈالا جائے اور آگے پیچھے کامے لگائے جائیں۔ مثال: ”الصلاة فرض“
- اردو میں جن الفاظ میں تبدیلی آئی ہے ان کو آج کل کے اسلوب کے مطابق کرنا لیکن اساتذہ سے تصدیق کے بعد۔ مثلاً: پرانا طریقہ: چاہئے۔ نیا طریقہ: چاہیے، پرانا طریقہ: اسلئے۔ نیا طریقہ: اس لیے، وغیرہ وغیرہ۔
متن سے متعلق:
- حوالہ کا نمبر درست جگہ پر لگانا، آگے پیچھے نہ لگانا۔
- جس بات میں کوئی اشکال وارد ہورہا ہو، اس کو حاشیہ میں ملاحظہ کی شکل میں لکھ کر اُردو میں نقل کرنا تاکہ قاری بآسانی اس کو سمجھ سکے۔
- اگر اوپر والی کسی بات کی وضاحت مقصود ہو تو حاشیہ میں فائدہ کا عنوان لگانا۔
- جہاں عنوانات کی ضرورت ہو وہاں مناسب عنوان لگانا۔
- عنوان مختصر اور جامع ہونا چاہیے۔
- جہاں کوئی واقعہ اردو میں ذکر کیا گیا ہو حوالہ میں اس واقعہ کی پوری عبارت نقل کرنا تاکہ واقعہ کا پورا تقابل اس کے ساتھ ہوسکے، پھر بعد میں اگر ضرورت محسوس ہوئی تو بقدر ضرورت اس سے حذف کرنا۔
- جہاں کوئی ایسی توجیہ سامنے آئے جو جستجو کے باوجود نہ مل سکے وہاں اُردو میں یہ عبارت لکھنا (اس کا حوالہ نہ مل سکا، تلاش جاری ہے)۔
نیا باب نئے صفحہ سے شروع کرنا۔
متفرقات:
- تمام تصحیح شدہ فائلوں کو ضائع نہ کرنا۔
- جس جگہ کسی استاد نے کسی حوالہ یا متن سے متعلق کوئی اشکال وغیرہ پیش کیا اور وہ اشکال باوجود کوشش کے آپ سے حل نہ ہوسکا ،تو وہاں حاشیہ میں یہ لکھنا (قابل غورفلاں صاحب نے یہاں فلاں اشکال کیا ہے اور مختصرًا قابل غور ہونے کی وجہ لکھنا۔
- اگر کسی مسئلہ کے حوالہ میں دو کتابوں سے حوالہ دیا گیا ہو اور دوسری کتاب میں بھی وہی بات بیان کی گئی ہو جو پہلی کتاب میں ہے تو ”وکذا في کتاب فلان“ لکھنا، جب کہ اس میں عبارت لکھنے کی ضرورت نہیں اور اگر دوسری کتاب میں پہلی کتاب سے زائد بھی کوئی بات مذکور ہو تو اس کی عبارت لکھنا۔
- شاملہ کی عبارت کو اچھی طرح دیکھنا اور املاءِ ترقیم کی اصلاح کرنا۔
- انٹر نیٹ سے تین طرح کا استفادہ کیا جاسکتا ہے: (1) اپنے مسلک کے کسی مسئلہ میں حوالہ جات نکالنے میں ،(2) ائمۂ ثلاثہ کے مسالک جاننے کے لیے اور ان کے حوالہ جات نکالنے کے لیے، (3) کسی نایاب کتاب کو ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے۔
انتظامی امور:
- ایک عدد فائل دو خانوں والا، ایک میں حل شدہ اوراق اور ایک میں غیر حل شدہ اوراق۔
- ایک عدد پنسل اور ربڑ۔
- لپ ٹاپ، جس میں ایم ایس ورڈ، شاملہ، مکتبہ مکنون موجود ہوں۔
- فائل Desktop پر نہ رکھنا، بلکہ اندر کسی فولڈر میں Save کرنا اور ڈسک ٹاپ پر اس کی شارٹ کٹ رکھنا۔
- ایک دو دن کے بعد اسی فائل سے کاپی لے کر اندر کسی فولڈر میں محفوظ کرنا۔
- پرنٹر انسٹال کرنا۔
شعبۂ حج وعمرہ تربیتی مجالس
حجاج کرام اور معتمرین کی تربیت اور حج وعمرہ کے ضروری مسائل سے ان کو روشناس کرانے کے لیے ہرسال موسم حج سے پہلے حجاج کرام مردان شہرکے مختلف حصوں میں تربیت دی جاتی ہے ، باقاعدہ دودن کی نشست ہوتی ہے، جس میں پہلے ان کو عمرہ کے تفصیلی احکامات کے ساتھ ساتھ ماڈل پر عملی طواف کروایا جاتاہے اور پھر اکرام کے بعد زیارتِ مدینہ سے متعلق احکام وفضائل بیان کئے جاتے ہیں اور دوسرے دن ان کو تکرار عمرہ اور حج کے تفصیلی احکامات بتلائے جاتے ہیں اور اس کے بعد انتظامی امور سے متعلق بعض ہدایات ان کے سامنے بیان کی جاتی ہیں۔
ایسے ہی معتمرین کی تربیت کے لیے ہفتہ کے مختلف دنوں میں مختلف جگہوں پر تربیتی مجالس کا انعقاد کیا جاتاہے ، یہ مجلس تین گھنٹے پر محیط ہوتی ہے ، اس میں ابتداء کچھ ترغیب کے بعد عمرہ کے تفصیلی احکام کا تذکرہ ہوتاہے اور بعد میں انتظامی امور کا بھی ذکر کیا جاتاہے۔ اس کے بعد ماڈل پر طواف کا عملی طریقہ اور صفا مروہ کا عملی طریقہ بتایا جاتاہے ، اور آخر میں زیارتِ مدینہ سے متعلق احکام وفضائل بیان کئے جاتے ہیں ۔
حجاج کرام کی رہنمائی کے لیے ”تحفۃ الحجاج “کے نام سے اور معتمرین کی رہنمائی کے لیے ”زاد العمار “ کے نام سے کتابیں لکھی گئی ہیں جوکہ جدید وقدیم مسائل کے بہترین عکاس ہیں۔
شعبۂ تعلیم بالغاں
اس شعبہ میں ویک انڈ یعنی ہفتہ اتوار یونیورسٹی کے سٹوڈینٹس اور ملازم طبقہ کو دین سے متعلق موٹی موٹی تعلیم وتربیت دی جاتی ہے ، نیز اس میں آگے جاکر یونیورسٹی اور کالج کے طلبہ کو سیکنڈ ٹائم میں درس نظامی سکھانے کا بھی پروگرام ہے ۔
شعبۂ عربی وانگلش کورسز
کئی سال سے مدرسہ کی سالانہ تعطیلات میں علمائے کرام اور دینی مدارس کے طلباء کو عربی بول چال سکھائی اور پڑھائی جاتی ہے ، لیکن آگے جاکر ان کو بقدر ضرورت انگریزی بھی سکھائی جائے گی تاکہ پوری دنیا میں دینی محنت کرنے اور دین کو پہنچانے میں آسانی ہو ۔
شعبۂ بنات
خواتین کی دینی تعلیم وتربیت کو مد نظر رکھتے ہوئے ”جامعہ خدیجۃ الکبری للبنات “کے نام سے مردان میں مفتی ابوبکر احسان صاحب کے سب سے بڑے بھائی ”مفتی ذاکر اللہ صاحب “ کی نگرانی یہ ادارہ قائم ہے ، جس میں خواتین کی دینی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے مختلف کورسزکا انعقاد کیا گیا ہے۔
الحمد للہ یہ ادارہ اپنے بہترین نظم ونسق اور کارکردگی کے اعتبار سے پورے علاقہ میں امتیاری خصوصیات کا حامل ہے:
:مختلف کورسس
1)چھ سالہ اعدادیات جن کی تعلیم آٹھویں جماعت کے مساوی ہے۔
2) چھ سالہ درس نظامی یعنی درجہ اولی تادورۂ حدیث۔
3)تین سالہ کورس شادی شدہ افراد کے لیے۔
4) یک سالہ کورس شادی شدہ افراد کے لیے ۔
5)چالیس روزہ کورس مصروف افراد کے لیے۔
6) چالیس روزہ عربی ، ترکی لینگویج اور جعرافیہ کورس۔
ادارہ سے متعلق مزید تفصیلات کے لیے مدرسہ کے ناظم ”مولوی محمد منیب صاحب“ سے ان کے نمبر پر رابطہ کیا جاسکتاہے: 03169840520
شعبہ اسلامک سکول
عصرحاضر کی ضروریات اور چلنجز کو مد نظر رکھتے ہوئے اور اسلامی اقدار وروایات کا خیال کرتے ہوئے مسلمان بچوں کی عصری تعلیم کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے مفتی ابوبکر احسان صاحب کے بڑے بھائی ”مولانا احمد اللہ صاحب “کی نگرانی میں ایک ادارہ ”الحرمین ایجوکیشنل سسٹم “کے نام سے قائم کیا گیا ہے ، جس میں میٹرک تک بچوں کو عصری تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ قابل بچوں کو حفظ قرآن بھی کروایا جاتاہے ۔
ادارہ سے متعلق مزید تفصیلات ”مولانا احمد اللہ صاحب “سے ان کے نمبر پر معلوم کیے جاسکتے ہیں : 03118183556