Notice: Function _load_textdomain_just_in_time was called incorrectly. Translation loading for the paroti domain was triggered too early. This is usually an indicator for some code in the plugin or theme running too early. Translations should be loaded at the init action or later. Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 6.7.0.) in /home/darulift/public_html/wp-includes/functions.php on line 6121
Author: admin - Darul Ifta Mardan Author: admin - Darul Ifta Mardan

حجام کا ہدیہ قبول کرنا کیسا ہے؟:

سوال:
   حجام داڑھی کاٹنے پر جو مزدوری لیتا ہے، اگر اس مزدوری سے وہ کسی کو ہدیہ دینا چاہیے، تو دے سکتا ہے یا نہیں؟ 
جواب:
   واضح رہے کہ ايک مٹھی سے کم داڑھی کاٹنا اور اس پر مزدوری لینا دونوں حرام ہیں، اس لیے اگر حجام خاص اسی حرام رقم سے ہدیہ دے، یا اس کی اکثر کمائی حرام کی ہے، تو ایسی صورت  میں اس سے ہدیہ قبول کرنا درست نہیں، اور اگر اس کی اکثر کمائی حلال کی ہو، اور وہ مجموعی رقم سے ہدیہ دے، یا تصریح کردے کہ یہ ہدیہ حلال مال سے ہے، تو ایسی صورت میں اس سے ہدیہ قبول کرنا درست ہے۔

حوالہ جات:
1. الميحط البرهاني لابن مازة الحنفي، كتاب الاستحسان والكراهية، الفصل السابع عشر في الهدايا والضيافات 5/ 230:
   رجل أهدى إلى إنسان، أو أضافه إن كان غالب ماله من حرام لا ينبغي أن يقبل، ويأكل من طعامه ما لم يخبر أن ذلك المال حلال استقرضه، أو ورثه، وإن كان غالب ماله من حلال، فلا بأس بأن يقبل ما لم يتبين له أن ذلك من الحرام، وهذا لأن أموال الناس لا تخلو عن قليل حرام، وتخلو عن كثيره، فيعتبر الغالب، ويبنى الحكم عليه.
2. وفيه أيضا، كتاب الإجارات، فصل في بيان ما يجوز من الإجارات وما لا يجوز 7/ 482:
   لا تجوز الإجارة على شيء من اللهو والمزامير والطبل وغيره؛ لأنها معصية والإجارة على المعصية باطلة؛ ولأن الأجير مع المستأجر يشتركان في منفعة ذلك فتكون هذه الإجارة واقعة على عمل هو فيه شريك.
3. العرف الشذي للكشميري، كتاب الآداب، باب ماجاء في تقليم الأظفار 4/ 162:
   وأما تقصير اللحية بحيث تصير قصيرة من القبضة، فغير جائز في المذاهب الأربعة.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:728
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-23




دورانِ وضو وضو ٹوٹ جانے کا حکم:

سوال:
   اگر دورانِ وضو، وضو ٹوٹ جا ئے، تو دوبارہ وضو کرنا چاہیے، یا نہیں؟
جواب:
   وضو کرتے وقت اگر کسی وجہ سے وضو ٹوٹ جائے، تو از سر نو وضو بنانا ضروری ہے، اس وضو کو مکمل کرنا کافی نہیں۔

حوالہ جات:
1. الدر المختار للحصكفي، كتاب الطهارة1 / 85:
   سببها(الحدث)في الحكمية، وهو وصف شرعي يحل في الأعضاء يزيل الطهارة.
2. الفتاوى الهندية للجنة العلماء،كتاب الطهارة، الباب الرابع في التيمم1/ 26:
   لو ضرب یدیه فقبل أن يمسح أحدث لايجوز المسح بتلك الضربة، كما لو أحدث في الوضوء بعد غسل بعض الأعضاء.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:730
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-23




نا فرمان بیٹے کی اصلاح کس طرح کی جائے؟:

سوال:
   ميرا لڑكا زيد اپنے ہم جوليوں کے غلط صحبت كی وجہ سے متاثر ہونے کی وجہ سے میری بات نہیں مانتا، مجھے دکھ پہنچاتا ہے، کئی علماء کرام سے فتوی لے کر بھی اور ویسے ملاقات کے ذریعے بھی اس کو سمجھایا، لیکن وہ مانتا نہیں، آپ اس کے بارے میں بتائیں کہ شریعت کا ایسے لڑکے کے بارے میں کیا حکم ہے جو اپنے باپ کو ستاتا ہو؟
جواب:
   نافرمان اولاد کو سمجھانے کے لیے کسی بھی اصلاحی صورت کو اختیار کرنا درست ہے، مثلا ان کو کسی اللہ والے کی خدمت میں لے جانا تاکہ وہ ان کے لیے دعا کرے، جیسے کہ صحابہ کرام اپنی اولاد کو نبی کریم ﷺ کی خدمت میں لے جایا کرتے تھے، ایسے ہی رات کو اٹھ کراس کے لیے دعا بھی مانگنی چاہیے، لیکن اس سلسلہ میں  زیادہ سختی نہیں کرنی چاہیے، ورنہ بعض اوقات بجائے اصلاح کے مزید نقصان ہونے کا خدشہ ہے۔

حوالہ جات:

1. قال الله تعالى:
   وَوَصَّيْنَا الاِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ اِحْسَانًا… رَبِّ اَوْزِعْنِیْ اَنْ اَشْکُرَ نِعْمَتَکَ الَّتِیْ اَنْعَمْتَ عَلَیَّ وَعَلٰی وَالِدَیَّ وَاَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضٰهُ وَاَصْلِحْ لِیْ فِیْ ذُرِّيَّتِیْ اِنِّیْ تُبْتُ اِلَيْکَ وَاِنِّیْ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ﴾ (الأحقاف:۱۵)
2. سنن الترمذي، كتاب الزكاة،  باب ما جاء في أدب الولد، الرقم: 1952:
   عن أيوب بن موسى، عن أبيه، عن جده، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم؛ قال: ما نحل والد ولدا من نحل أفضل من أدب حسن.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:727
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-23




نابالغ سے خلع لینے کا حکم:

سوال:
   ہندہ اور بکر دونوں نابالغ ہیں، دونوں کا عقد نکاح ہوگیا، اب ہندہ بالغہ ہوگئی ہے اور اس نے سابقہ نکاح بر قرار رکھا، اب وہ خلع لینا چاہتی ہے، تو بکر نابالغ خود خلع دے سکتا ہے یا اس کا ولی خلع دے گا؟
جواب:
   مذکورہ صورت میں جب تک  شوہر نابالغ ہے تب تک وہ یا اس کا والد اس کی بیوی کو نہ طلاق دے سکتے ہیں، اور نہ ہی خلع، لہذا شوہر کے بالغ ہونے کا انتظار کرنا ضروری ہے، بلوغت کے بعد اگر وہ خلع یا طلاق پر راضی ہو، تو خلع یا طلاق لینے میں  مضائقہ نہیں۔

حوالہ جات:
1. المبسوط لشمس الأئمة السرخسي، كتاب الحيل، باب الصلح 30/ 222:
   وإذا خلع الأب ابنته من زوجها بمالها على الزوج من الصداق لم يجز ذلك.
2. تبيين الحقائق للزيلعي،كتاب الطلاق، باب الخلع 2/ 273:
   (وإن خلع صغيرته بمالها لم يجز عليها) أي: لو خلع الأب ابنته الصغيرة بمالها لا ينفذ عليها.
3. الفتاوى الهنديةللجنة العلماء، كتاب الطلاق، الفصل الثالث في الطلاق على المال 1/ 504:
   إذا خالع الأب على ابنه الصغير لا يصح ولا يتوقف على إجازته كذا في فتاوى قاضي خان خلع السكران والمكره جائز عندنا وخلع الصبي باطل.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:726
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-22




نابالغ بچے کی زمین فروخت کرنے کاحکم:

سوال:
    کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ اگر نابالغ بچے  کی زمین اس کے ولی نے فروخت کردی، تویہ  شرعا یہ جائز ہے یا نہیں؟
جواب:
   اگر نابا لغ بچے  کی کسی ضرورت کی بنياد پر اس کا ولی اس کی زمین مارکیٹ ریٹ کے مطابق فروخت کردے، تو یہ جائز ہے۔

حوالہ جات:
1. الهداية لعلي بن أبي بكر المرغيناني، كتاب الوصايا، باب الوصي وما يملكه 4/ 543:
   ولا يجوز بيع الوصي ولا شراؤه إلا بما يتغابن الناس في مثله، لأنه لا نظر في الغبن الفاحش، بخلاف اليسير، لأنه لا يمكن التحرز عنه، ففي اعتباره انسداد بابه.
2. رد المحتار لابن عابدين، كتاب القضاء، مطلب في حبس الصبي 5/ 426:
   (قوله: ولو مصلحا) إنما ذكره؛ لأنهم صرحوا بأن شرط بيع الأب عقار الصغير بمثل القيمة كونه محمودا أو مستورا، فلو كان مفسدا، لا يجوز إلا بضعف القيمة.
3. بدائع الصنائع للكاساني، كتاب البيوع، فصل في شرائط النفاذ ومنها الولاية 5/ 153:
   وليس له أن يبيع ماله بأقل من قيمته قدر ما لا يتغابن الناس فيه عادة.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:719
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-22




غسلِ جنابت کے بعد منی کےقطرے نکلنے سےغسل اور نماز کا حکم:

سوال:
   ایک مرتبہ زید نے غسلِ جنابت کے بعد نماز پڑھ لی، اور پھر نماز کے بعد اس نے دیکھا کہ عضوِ تناسل سے منی کا قطرہ خارج ہو گیا، تو اب غسل اور نماز دونوں کا لٹانا ضروری ہے، یا صرف غسل؟
جواب:
   صورتِ مسؤلہ میں اگر یہ شخص غسل سے پہلے نہ سویا ہو، نہ اس نے پیشاب کیا ہو اور نہ چالیس (40) قدم چلا ہو، تو ایسی صورت میں اس پر دوبارہ غسل کرنا واجب ہے، اور نماز لوٹا نے کی ضرورت نہیں ہے، لیکن اگر غسل سے پہلے ان تینوں کاموں میں سے کوئی ایک بھی کام کیا ہو، تو اس پر نہ غسل کا اعادہ ہے اور نہ  نماز لوٹانے کی ضرورت ہے۔  

حوالہ جات:
1. الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب الطهارة، الفصل الثالث في المعاني الموجبة للغسل1/ 14:
   لو اغتسل من الجنابة قبل أن يبول، أو ينام، وصلى ثم خرج بقية المني، فعليه أن يغتسل عندهما خلافا لأبي يوسف رحمه الله، ولاكن لايعيد الصلاة في قولهم جميعا.
2. رد المحتار، كتاب الطهارة، سنن الغسل160/1:
وكذا لو خرج منه بقية المني بعد الغسل قبل النوم أو البول أو المشي الكثير نهر أي لا بعده؛ لأن النوم والبول والمشي يقطع مادة الزائل عن مكانه بشهوة فيكون الثاني زائلا عن مكانه بلا شهوة فلا يجب الغسل اتفاقا زيلعي، وأطلق المشي كثير، وقيده في المجتبى بالكثير وهو أوجه؛ لأن الخطوة والخطوتين لا يكون منهما ذلك حلية وبحر. قال المقدسي: وفي خاطري أنه عين له أربعون خطوة فلينظر. اهـ.
.
3. الفتاوى التاتار خانية لعالم بن علاء الهندي،كتاب الطهارة، الفصل الثالث في الغسل 1/ 283:
   ولو جامع واغتسل قبل أن يبول وصلى، ثم سال بقية المني، فإنه يعيد الغسل عندهما، ولايعيد الصلاة بلا خلاف.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:718
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-22

 




مرض الوفات میں ایک بیٹے کو قبضہ دیے بغیرکوئی چیز ہبہ کرنا:

سوال:
   زید نے مرض الوفات میں اپنے ایک بیٹے کو کچھ زمین ہبہ کردی، اس مرض میں زید وفات پا گیا، تو کیا زید کا مرض الوفات میں ایک بیٹے کو ہبہ کرنا درست ہے؟
جواب:
   اگر مرض الوفات ميں وارث كو زمين ھبۃ ً دیدی لیکن قبضہ نہیں دیا، تو یہ وصیت کے حکم میں  ہے، اور وارث کے حق میں وصیت کرنا درست نہیں، لہذا زید کے مرنے کے بعد یہ زمین بھی بطور ترکہ تمام ورثاء میں تقسیم ہوگی، البتہ اگر باقی ورثاء  نے اس پر رضامندی ظاہر کر دی اور وہ سب بالغ ہوں، تو یہ زمین ترکہ میں شامل نہیں ہوگی، بلکہ اس وارث کو ملے گی جس کے لیے وصیت کی گئی ہے۔

حوالہ جات:
1. رد المحتار لابن عابدين، كتاب الهبة، باب الرجوع في الهبة 5/ 700:
   وهب في مرضه، ولم يسلم حتى مات، بطلت الهبة؛ لأنه وإن كان وصية حتى اعتبر فيه الثلث فهو هبة حقيقة، فيحتاج إلى القبض.
2. فتاوى قاضيخان لحسن بن منصور الأوزجندي، فصل في مسائل مختلفة 3/ 312:
   ولو وهب شيئا لوارثه في مرضه، أو أوصى له بشيء، و أمر بتنفيذه، قال الشيخ الإمام أبو بكر محمد بن الفضل رحمه الله تعالى: كلاهما باطلان، فإن أجاز بقية الورثة ما فعل، و قالوا أجزنا ما أمر به الميت، تنصرف الإجازة إلى الوصية؛ لأنها مأمورة، لا إلى الهبة.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:724
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-22




عیسائی کو ”میری کرسمس“ کہنا اور کرسمس منانا:

سوال:
   کرسمس منانا اور عیسائیوں کو میری کرسمس کہنا ایک مسلمان کے لیے جائز ہے؟
جواب:
   کسی مسلمان کے لیےغیر مسلموں کی مذہبی تہوارکے موقع پر ان کو مبارکباد دینا یا میری کرسمس کہنا ہر گز جائز نہیں،  ایسے ہی ان کے مذہبی اجتماع میں شرکت کر کے اس کی رونق میں اضافہ کرنا کسی طرح درست نہیں، بلکہ اس میں شرکت کرنے سے  اگر ان کے دین کی تعظیم مقصود ہو، تو اس میں کفر کا بھی اندیشہ ہے۔

حوالہ جات:
1. سنن أبي داود، كتاب اللّباس، باب في لبس الشُّهْرَة، الرقم 4031:
   عن ابنِ عُمَرَ رضي الله عنه قال: قال رسولُ الله صلَّى الله عليه وسلم : مَن تَشَبَّه بقومٍ فهو منهم.
2. الدر المختار للحصفكي، كتاب الخنثى، مسائل شتى 6/ 754:
(والإعطاء باسم النيروز والمهرجان لا يجوز) أي الهدايا باسم هذين اليومين حرام (وإن قصد تعظيمه) كما يعظمه المشركون (يكفر).
3. التالتارخانية لعالم بن علاء الهندي، كتاب أحكام المرتدين، فصل الشركة في أعياد الكفار 7/ 348:
   اجتمع المجوس يوم النيروز فقال مسلم: خوب رسمي نهاده اند، أو قال: نيك آئين نهاده اند يخاف عليه الكفر.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:723
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-22




علاج کی غرض سے بھنگ استعمال کرنا:

سوال:
   کیا بھنگ کا استعمال بلا ضرورت بطور نشہ کے جائز ہے؟ اور تداوی کے لیے کیسا ہے؟
جواب:
    بھنگ چونکہ نشہ آور اشیاء میں سے ہے، اس لیے بلا شدید مجبوری کے اس کا استعمال جائز نہیں، تاہم بوقتِ ضرورت کسی مسلمان دیندار ڈاکٹر کے کہنے پر بقدرِ ضرورت استعمال کرنے کی گنجائش ہے، بشرطیکہ کسی اور حلال چیز سے علاج ممکن نہ ہو۔

حوالہ جات:
1. سنن ابن ماجه، أبواب الأشربة، باب كل مسكر حرام، الرقم: 3391:
   عن سعيد بن أبي بردة، عن أبيه، عن أبي موسى، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: “كل مسكر حرام”.
2. البحر الرائق لابن نجيم، كتاب الحدود، باب حد الشرب 5/ 30:
   ويحرم أكل البنج والحشيشة والأفيون لكن دون حرمة الخمر.
3. الدر المختار للحصكفي، كتاب الأشربة 6/ 678:
   (ويحرم أكل البنج والحشيشة) هي ورق القنب (والأفيون) لأنه مفسد للعقل، ويصد عن ذكر الله، وعن الصلاة (لكن دون حرمة الخمر، فإن أكل شيئا من ذلك، لا حد عليه، وإن سكر) منه (بل يعذر بما دون الحد) كذا في الجوهرة.
قال ابن عابدين تحت قوله: (ويحرم أكل البنج) … وفي القهستاني: هو أحد نوعي شجر القنب، حرام لأنه يزيل العقل، وعليه الفتوى … أن مراد صاحب الهداية وغيره إباحة قليله للتداوي ونحوه، ومن صرح بحرمته أراد به القدر المسكر منه، يدل عليه ما في غاية البيان عن شرح شيخ الإسلام: أكل قليل السقمونيا والبنج مباح للتداوي، ما زاد على ذلك إذا كان يقتل أو يذهب العقل حرام.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:722
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-22




مسجد کے چندے سے جنازہ کی چارپائی وغیرہ خریدنا:

سوال:
   مسجد کے چندے سے میت کو قبرستان لے جانے کے لیے چارپائی خریدنا، میت کے غسل کے لیے تختہ اور قبر کھودنے کے لیے کھدال وغیرہ خریدنا جائز ہے یا نہیں؟
جواب:
   میت کے جنازہ کے لیے چارپائی وغیرہ ضروریاتِ مسجد میں داخل نہیں، اس لیے مسجد کے وقف شدہ پیسوں سے ان کا خریدنا جائز نہیں، اہل محلہ کو چاہیے کہ اس کے لیے  الگ فنڈ کا اتنظام کریں۔

حوالہ جات:
1. فتاوى قاضي خان لحسن بن منصور الأوزجندي، كتاب الوقف 3/ 167:
   ذكر الواقف في كتاب الوقف أن القيم يشتري جنازة لا يجوز للقيم أن يشتري جنازة من غلة الوقف، ولو اشترى، ونقد الثمن من غلة الوقف يكون ضامنا؛ لأن مستغل المسجد يكون وقفا على مصالح المسجد، وشراء الجنازة ليس من مصالح المسجد.
3. رد المحتار لابن عابدين، كتاب الوقف، مطلب في وقف المنقول قصدا 4/ 366:
   شرط الواقف كنص الشارع أي في المفهوم والدلالة، ووجوب العمل به.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:721
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-22