جماع کے ًبعد غسل کرنے میں تاخیر کرنا:
سوال:
جماع کے بعد فورا غسل کرنا ضروری ہے یا صبح اُٹھنے کے بعد بھی غسل کرنے کی گنجائش ہے، نیز عورت کو اگر احتلام ہو جائے ،یا شادی شدہ عورت جماع کر لے، تو اس کے بعد غسل کب کرے گی، جب کہ رہائش بھی مشترکہ گھر میں ہو یعنی ایسا گھر ہو جس میں سسر ساس دیور وغیرہ بھی رہتے ہوں؟
جواب:
اگر بسہولت ممکن ہو تو بہتر یہ ہے کہ جماع کے بعد فورا غسل کیا جائے، تاہم بروقت ضرورت اگر صرف منہ ہاتھ دھویا جائےاور غسل کو نماز کے وقت تک مؤخر کیا جائے تو اس کی بھی گنجا ئش ہے، لیکن اتنی تاخیر کی جائے، جس سے نماز کا وقت نکل کرنماز فوت ہو جائے۔
حوالہ جات:
1. الفتاوى الهندية، الباب الثاني في الغسل 1/16:
الجنب إذا أخرالاغتسال إلى وقت الصلاة لا يأثم. كذا في المحيط، قد نقل الشيخ سراج الدين الهندي الإجماع على أنه لا يجب الوضوء على المحدث، والغسل على الجنب والحائض والنفساء قبل وجوب الصلاة أو إرادة ما لا يحل إلا به.
2. المحيط البرهاني لابن مازة ا لحنفي، كتاب الطھارات، الباب الثالث في الغسل، نوع من هذا الفصل في المتفرقات 1/233:
ألا ترى أن الجنب إذا أخر الاغتسال إلى وقت الصلاة لا يأثم، دل أن المقصود من الطهارة الصلاة، وهي لا تتمكن من الصلاة، فكان بها أن لا تغتسل.
والله أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی
فتوی نمبر:11
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-08-23