Notice: Function _load_textdomain_just_in_time was called incorrectly. Translation loading for the paroti domain was triggered too early. This is usually an indicator for some code in the plugin or theme running too early. Translations should be loaded at the init action or later. Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 6.7.0.) in /home/darulift/public_html/wp-includes/functions.php on line 6121
Author: admin - Darul Ifta Mardan Author: admin - Darul Ifta Mardan

ڈھکن دار کموڈ والے واش روم میں وضو کے دوران دعائیں پڑھنا:

سوال:
   غسل خانہ میں انگلش کموڈ یعنی ڈھکن دار کموڈ موجود ہو، تو اس میں وضو کرتے ہوئے وضو کی دعائیں پڑھنا درست ہے یا نہیں؟
جواب:
  باتھ روم کا کموڈ چاہے ڈھکن دار ہو یا بغیر ڈھکن کے، دونوں صورتوں میں زبان سے دعائیں پڑھنا خلافِ ادب ہے، البتہ دل دل میں پڑھنے میں  مضائقہ نہیں۔

حوالہ جات:
   الدر المختار للحصكفي، كتاب الطهارة، سنن الوضوء 1/ 241، 242:
   (و) البداءة (بالتسمية) قولا … (قبل الاستنجاء وبعده) إلا حال انكشاف، وفي محل النجاسة فيسمي بقلبه.
   قال ابن عابدين تحت قوله: (إلا حال انكشاف إلخ ) الظاهر أن المراد أنه يسمي قبل رفع ثيابه إن كان في غير المكان المعد لقضاء الحاجة، وإلا فقبل دخوله، فلو نسي فيها سمي بقلبه، ولا يحرك لسانه تعظيما لاسم الله تعالى.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:60
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-09-14

 




عورت کی چھاتی سے نکلنے والے پانی کا حکم:

سوال:
   عورت کی چھاتی سے  پانی نکلنے سے وضو ٹوٹتا ہے یا نہیں؟
جواب:
   عورت کی چھاتی سے نکلنے والے پانی کے ساتھ اگر درد محسوس ہوتا ہو، تو اس کے نکلنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے اور اگر درد کا محسوس نہ ہوتا ہو، تووضو نہیں ٹوٹتا؛ کیونکہ پہلی صورت میں یہ زخم سے نکلنے والے پیپ کے حکم میں ہے، جبکہ دوسری میں پیپ کے حکم میں نہیں۔

حوالہ جات:
1. الدر المختار للحصکفي، کتاب الطھارة، باب نواقض الوضوء 1/ 305:
   (كما) لا ينقض (لو خرج من أذنه) ونحوها كعينه وثديه (قيح) ونحوه، كصديد وماء سرة وعين (لا بوجع) وإن خرج (به) أي: بوجع (نقض)؛ لأنه دليل الجرح.
2. تبيين الحقائق للزيلعي، كتاب الطهارة 1/ 48:
   والقيح الخارج من الأذن أو الصديد إن كان بدون الوجع، لا ينقض، ومع الوجع ينقض؛ لأنه دليل الجرح.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:59
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-09-13

 




حالت ِحیض میں جماع کرنے کفارہ:

سوال:
   حیض کی حالت میں جماع کرنے سے کفارہ لازم آتا ہے یا نہیں؟
جواب:
   حالتِ حیض میں جماع کرنا گناہِ کبیرہ ہے، جس پر توبہ واستغفار كرنا اورآئندہ کے لیے اس سے اجتناب ضروری ہے، نیز اس حالت میں جماع کرنے سے اگرچہ کفارہ لازم نہیں تاہم بہتر یہ ہے کہ ایک دینار(سونے کا سکہ) جس کا وزن (4.374 گرام ) ہوتا ہے یا آدھے دینار کی قیمت صدقہ  کیا جائے۔

حوالہ جات:
1. النهر الفائق لسراج الدين ابن نجیم، كتاب الطهارة، باب الحيض 1/ 132:
   اعلم أن القربان إما وطء أو استمتاع، أما الأول: فلا خلاف بين العلماء في حرمته حيث كان مختارا عامدا، ويندب له أن يتصدق بدينار أو نصفه.
2. الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب الطهارة، فصل في أحكام الحيض والنفاس والاستحاضة 1/ 39:
   ومنها حرمة الجماع، هكذا في النهاية والكفاية، وله أن يقبلها، ويضاجعها، ويستمتع بجميع بدنها ما خلا ما بين السرة والركبة عند أبي حنيفة وأبي يوسف، هكذا في السراج الوهاج، فإن جامعها، وهو عالم بالتحريم، فليس عليه إلا التوبة والاستغفار، ويستحب أن يتصدق بدينار أو نصف دينار.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعۃ دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:58
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-09-13

 




وضو میں کان اور ناک کے سوراخ میں پانی پہنچانے کا حکم:

سوال:
   کسی عورت کے کان يا  ناک میں سوراخ ہو، تو وضو کرتے ہوئے اس میں پانی پہنچانا ضروری  ہے یا نہیں؟ 
جواب:
  وضو کے دوران کانوں کا دھونا فرض نہیں ہے، لہذا کانوں کے سوراخ میں پانی پہنچانا بھی ضروری نہیں ہے، جبکہ ناک کے سوراخ میں اگر وضو کرتے وقت  پانی اوپر بہانے سے سوراخ کے اندر پہنچ جاتا ہو تو بہانا کافی ہے اور اگر سوراخ تنگ ہو تو انگلی سے حرکت دینا اور پانی پہنچانا ضروری ہے، لیکن اگر سوراخ بہت زیادہ تنگ ہو یا بند ہو چکا ہو تو اس کو بتکلف کھولنے اور پانی پہنچانے کی ضرورت نہیں۔

حوالہ جات:
1. غنية المتملي لإبراهيم الحلبي، كتاب الطهارة 1/ 42:
   (امرأة اغتسلت هل تتكلف في إيصال الماء إلى ثقب القرط أم لا؟) القرط بضم القاف واسكان الراء ما يعلق في شحمة الأذن (قال) أي: محمد في الأصل، وهذا دأب صاحب المحيط يذكر لفظ قال ومراده ذلك، (تتكلف فيه )أي إيصال الماء إلى ثقب القرط (كما تتكلف في تحريك الخاتم إن كان ضيقا) والمعتبر فيه غلبة الظن بالوصول.
2. البحر الرائق لابن نجيم، كتاب الطهارة 1/ 88:
  ولولم يكن قرط، فدخل الماء الثقب عند مروره أجزاه، كالسرةِ وإلا أدخله، كذا في فتح القدير، ولا تتكلف في إدخال شيئ سوی الماء من خشب، ونحوهِ كذا في المعراج.
3. التاتارخانيه لعالم بن علاء الهندي، كتاب الطهارة، فصل في الغسل 1/ 274:
   وسئل شيخ الإمام نجم الدين النسفي عن امرأة تغتسل من الجنابة هل تتكلف بإيصال الماء إلى ثقب القرط؟ قال: إن كان القرط فيه، وتعلم أنه لايصل الماء إليه من غير تحريك، فلا بد من التحريك، كما في الخاتم، وإن لم يكن القرط فيه إن كان لا يصل الماء إليه إلا بتكلف، لا تتكلف.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعۃ دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:57
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-09-13




کن کن چیزوں سے استنجاء کرنا درست ہے؟:

سوال:
کن کن چیزوں سے استنجاء اورطہارت حاصل کرنا چاہیے اور کن کن چیزوں سے نہیں ؟ 
جواب:
واضح رہے کہ استنجا ہر اس چیز سے کرنا جائز ہے، جو ناپاکی کو دور کرنے یا جذب کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو: مثلا: پتھر، مٹی کا ڈھیلا، ریت، اینٹ کے ٹکڑے، روئی اور پرانا کپڑا وغیرہ لیکن بہتر یہ ہے کہ ان چیزوں کے استعمال کے بعد پانی کے ساتھ استنجا کیا جائے۔
 ہڈی، لید، گوبراور ہر ناپاک چیز اسی طرح پختہ اینٹ، ٹائل، ٹھیکرا، شیشہ، کوئلہ، جانوروں کے گھاس اور چارہ اسی طرح وہ پتھر یا ڈھیلا جس سے ایک مرتبہ استنجا ہو چکا ہو، اسی طرح ایسا کاغذ جو لکھنے، پڑھنے کے قابل ہو، اس سے استنجا کرنا مکروہ ہے، تاھم آج کل خاص استنجا اور صفائی کی غرض سے ٹائلٹ پیپر بنایا جاتا ہے، اس سے استنجا کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔

حوالہ جات:
لما في الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب الطهارة 1/ 147:
یجوز الاستنجاء بنحو حجر منق کالمدر والتراب والعود والخرقة والجلد وماأشبهها، ولا فرق بين أن يكون الخارج معتادا أو غير معتاد في الصحىح، حتى لو خرج من السبيلين دم أو قيح، يطهر بالحجارة ونحوها … والاستنجاء بالماء أفضل إن أمكنه ذلك من غىر كشف العورة، وإن احتاج إلى كشف العورة، يستنجي بالحجر، ولا يستنجي بالماء … ويكره الاستنجاء بالعظم والروث والرجيع والطعام وورق الشجر والشعر، هكذا في التبيين.
وفي فتاوى التاتارخانية لعالم بن علاءالهندي، كتاب الطهارة 1/ 211، 212:
ويكره الاستنجاء … بالعظم والروث والطعام والخزف والآجر والفحم … الاستنجاء نوعان: أحدهما: بالماء، والثاني: بالحجر أو المدر أو ما يقوم مقامهما من الخشب أو التراب، والاستنجاء بالماء أفضل، وفي فتاوى الحجة: إن أمكنه ذلك من غير كشف العورة، وإن لم يكن إلا بكشف العورة يستنجي بالأحجار ولا يستنجي بالماء.
وفي بدائع الصنائع للكاساني، كتاب الطهارة 1 /101 ،102
وأما بيان ما يستنجى به: فالسنة هو الاستنجاء بالأشياء الطاهرة من الأحجار، والأمدار، والتراب، والخرق البوالي، ويكره بالروث وغيره من الأنجاس … لما روي أن النبي صلى الله عليه وسلم نهى عن الاستنجاء بالروث والرمة، وقال من استنجى بروث أو رمة، فهو بريء مما أنزل على محمد.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعۃ دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:56
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-09-13

 




جڑواں بچوں کی ولادت میں نفاس کب سے شروع ھوگا؟:

سوال:
   جس عورت کے دو بچے دس دن کے وقفے سے پیدا ہوجائیں، تو عورت کا نفاس پہلے بچے سے شروع ہوگا یا دوسرے سے؟
جواب:
   دو بچوں کی ولادت کی درمیانی مدت اگر چھ (6) ماہ سے کم ہو، تو یہ دونوں بچے توأمين یعنی جڑواں کہلاتے ہیں، جن میں سے پہلے بچے کی پیدائش کے بعد جو خون آتا ہے وہی نفاس ہوتا ہے،  لہذا مذکورہ صورت میں اس عورت کا نفاس پہلے بچے کی ولادت سے شروع ہوگا۔

حوالہ جات:
1. الدرالمختار للحصکفی، کتاب الطھارة، فصل في الحيض والنفاس 1/ 549:
   (والنفاس لأم توأمين من الأول) هما ولدان، بينهما دون نصف حول.
2. بدائع الصنائع للكاساني، كتاب الطهارة، فصل في النفاس1/ 161:
   أن المرأة إذا ولدت وفي بطنها ولد آخر فالنفاس من الولد الأول عند أبي حنيفةؒ وأبي يوسفؒ، وعند محمدؒ وزفرؒ من الولد الثاني وانقضاء العدة بالولد الثاني بالإجماع.
3. تبيين الحقائق للزيلعي، كتاب الطهارة، باب الحيض 1/ 190:
   ونفاس التوأمين من 0الأول) وهذا قول أبي حنيفةؒ وأبي يوسفؒ، وقال محمدؒ وزفرؒمن الولد الثاني.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعۃ دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:14
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-09-13

 




مسوڑھوں سے خون نکلنے سے وضو کا حکم:

سوال:
   وضو کرنے کے بعد اگر مسوڑھوں سے خون نکلے، تو کیا اس سے وضو ٹوٹ جائے گا یا نہیں؟
جواب:
   وضو کرنے کے بعد اگر مسوڑھوں سے خون نکلے اور تھوک کا رنگ غالب ہو یعنی بالکل سرخ ہو، تو وضو ٹوٹ جائے گا، اور اگر تھوک کا رنگ مغلوب یعنی زرد ہو، تو وضو نہیں ٹوٹےگا اور اگر تھوک اور خون کا رنگ برابر ہو یعنی سرخی مائل ہو تو بھی وضو ٹوٹ جائے گا۔

حوالہ جات:
1. الفتاوی الهندیة للجنة العلماء، کتاب الطهارة، فصل في نواقض الوضوء 1/ 11:
   وإن خرج من نفس الفم، تعتبر الغلبة بينه وبين الريق، فإن تساويا، انتقض الوضوء، ويعتبر ذلك من حيث اللون، فإن كان أحمر انتقض، وإن كان أصفر لا ينتقض.
2. البحر الرائق لابن نجيم، كتاب الطهارة، وسننه أي: سنن الوضوء 1/ 69 :
   قوله: (أو دما غلب عليه البصاق): معطوف علی البلغم … قيد بغلبة البزاق؛ لأنه لو كان مغلوبا والدم غالب نقض؛ لأنه سال بقوة نفسه، وإن استويا نقض أيضا؛ لاحتمال سيلان بنفسه، أو أساله غيره فوجد الحدث من وجه.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعۃ دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:21
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-09-11

 




خنثٰی مشکل کی میت کو کون غسل دے گا؟:

سوال:
   خنثٰی مشکل  کا انتقال ہو جائے، تو اس کو کون غسل دے گا؟
جواب:
   خنثٰی مشکل (جس آدمی میں مرد اور عورت دونوں کی علامات موجود ہوں) کو نہ مرد غسل دیں گے اور نہ خواتین، بلکہ اس کو تیمم کرایا جائے گا، البتہ اگر خنثیٰ مشکل چار سال یا اس سے کم عمر کا ہو تو اس کو خواتین بھی غسل دے سکتی ہیں۔

حوالہ جات:
1. الدر المختار للحصكفي مع رد المحتار، كتاب الصلاة، باب صلاة الجنازة 3/ 111:
   وییمم الخنثی المشكل لو مراهقا.
   قال ابن عابدين تحت قوله: (لو مراهقا) المراد به هنا من بلغ حدّ الشهوة، كما يعلم مما بعده.
2. النهر الفائق لعمر بن إبراهيم بن نجيم، كتاب الصلاة، الجنائز 1/ 385:
   والظاهر في الخنثى المشكل المراهق، أن يمم أيضا.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعۃ دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:55
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-09-12

 




وضو کے بعد سر کے بال منڈوانے سے وضو اور مسح کا حکم:

سوال:
   اگر کوئی شخص وضو کے بعد سر کے بال منڈوائے، تو کیا اس پر دوبارہ وضو یا سر کا مسح کرنا واجب ہے، یا نہیں؟
جواب:
   سر یا جسم کے کسی بھی حصہ کے بال کاٹنے سے چونکہ وضو یا مسح نہیں ٹوٹتا؛ اس لیے سر کے بال منڈوانے کے بعد دوبارہ وضو یا مسح کرنے کی ضرورت نہیں۔

حوالہ جات:
1. الدرالمختار للحصكفي، كتاب الطهارة، مطلب: في معنى الاشتقاق وتقسيمة إلى ثلاثة أقسام 1/ 227:
   (ولا يعاد الوضوء) بل ولا بلّ المحل (بحلق رأسه ولحيته كما لا يعاد) الغسل للمحل، ولا الوضوء (بحلق شاربه وحاجبه وقلم ظفره).
2. مراقي الفلاح لحسن بن عمار الشرنبلالي، كتاب الطهارة، ص: 26:
   ولا يعاد الغسل، ولو من جنابة (ولا المسح) في الوضوء (على موضع الشعر بعد حلقه)؛ لعدم طروء حدث به، (و) كذا لا يعاد (الغسل بقص ظفره وشاربه)؛ لعدم طروء حدث، وإن استحب الغسل.
3. المحيط البرهاني لابن مازة الحنفي، كتاب الطهارة 1/ 38 :
   ولو أمر الماء علىرأسه ولحيته، ثم حلقهما، لا يلزمه إعادة المسح عليها، هكذا روى ابن سماعة في ’’نوادره‘‘ عن محمد رحمه الله.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعۃ دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:54
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-09-12




ہوا نکلنے کے بعد استنجاء کرنے کا حکم:

سوال:
ہوا خارج ہونے سے استنجا کرنا چاہیے، یا صرف وضو کرنا کافی ہے؟
جواب:
ہوا خارج ہونے سے صرف وضو کرنا کافی ہے، استنجا کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ فقہائے كرام صرف ہوا نکلنے کی وجہ سے استنجا کرنے  کو بدعت  قرار دیا ہے۔

حوالہ جات:
1. الدرالمختار للحصکفي، کتاب الطھارة، فصل الاستنجاء 1/ 599:
   إزالة نجس عن سبيل، فلا يسن من ريح.
   قال ابن عابدین تحت قوله: (فلا يسن من ريح ) لأن عينها طاهرة، وإنما نقضت لانبعاثها عن موضع النجاسة، ولأن بخروج الريح لا يكون على السبيل شيء، فلايسن منه، بل هو بدعة، كما في ”المجتبى“.
2. الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب الطهارة، الفصل الثالث في الاستنجاء 1/ 50:
   الاستنجاء على خمسة أوجه: … الخامس بدعة، وهو الاستنجاء من الريح، كذا في الاختيار شرح المختار.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعۃ دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:52
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-09-12