Notice: Function _load_textdomain_just_in_time was called incorrectly. Translation loading for the paroti domain was triggered too early. This is usually an indicator for some code in the plugin or theme running too early. Translations should be loaded at the init action or later. Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 6.7.0.) in /home/darulift/public_html/wp-includes/functions.php on line 6121
Author: admin - Darul Ifta Mardan Author: admin - Darul Ifta Mardan

نمازکے فساد کی صورت میں سنتوں کی قضا کا حکم:

سوال:
   امام صاحب نے عشاء کی نماز پڑھائی اور لوگوں نے فرض کے بعد سنتیں بھی پڑھ لیں، پھر کسی عذرکی وجہ سے نماز فاسد ہونے کا پتہ چلا، تو جن لوگوں نے سنتیں پڑھی ہیں، اب وہ لوگ سنتیں بھی دوبارہ پڑھیں گے یا نہیں؟  
جواب:
   مذکورہ صورت میں اگر اس نماز کا اعادہ وقت کے اندر اندر ہو رہا ہو، تو فرض نماز کے ساتھ سنتیں بھی پڑھیں، اور اگر وقت نکلنے کے بعد ہو رہا ہو تو سنتیں دوبارہ پڑھنے کی ضرورت نہیں۔

حوالہ جات:
1. فتاوى التاتارخانيه لعالم بن علاء الهندى، كتاب الصلاة، الفصل قضاء الفائتة 2/ 450 :
   وفي الكافي: ولو صلى العشاء بلا وضوء، ثم توضأ، وصلى السنة والوتر، ثم علم أنه صلى العشاء بلا وضوء، يعيد العشاء عنده والسنة، ولا يعيد الوتر، وعندهما يعيد الوتر أيضا.
2. المحيط البرهاني لابن مازة الحنفي، كتاب الصلاة، الفصل الحادي عشر: التطوع قبل الفرض وبعده 2/ 235:
   وسائر النوافل إذا فاتت عن وقتها لا تقضى بالإجماع، سواء فاتت مع الفرض أو بدون الفرض، هذا هو المذكور في ظاهر الرواية.
3. البحر الرائق لزين الدين ابن نجيم، كتاب الصلاة، باب إدراك الفريضة 2/ 131:
   (ولم تقض إلا تبعاً) أي: لم تقض سنة الفجر إلا إذا فاتت مع الفرض فتقضي تبعا للفرض، سواء قضاها مع الجماعة أو وحده؛ لأن الأصل في السنة أن لا تقضي لاختصاص القضاء بالواجب.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:100
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-09-20

 




فجر کی سنتوں کے بعد بات چیت کرنا:

سوال:
   کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر فجر کی سنتوں کے بعد کوئی بات چیت کرے، توکیا اس سے اس کی سنتیں باطل ہو جاتی ہیں؟
جواب:
   فجر کی سنتیں ہوں یا کسی اور نماز کی، فرض اور سنتوں کے درمیان دنیاوی بات چیت کرنے سے سنتیں فاسد نہیں ہوتیں، البتہ ان کے اجر وثواب میں کمی آجاتی ہے، اس لیے سنتیں پڑھنے کے بعد فرض نماز سے پہلے یا فرض پڑھنےکے بعد سنتوں کی ادائیگی سے پہلے غیر ضروری بات چیت کرنے سے حتی الامکان گریز کرنا چاہیے۔

حوالہ جات:
1. الدر المختار للحصکفي، كتاب الصلاة، باب الوتر والنوافل 2 / 558:
   (ولو تكلم بين السنة والفرض لا يسقطها، ولكن ينقص ثوابها)، وقيل: تسقط (وكذا كل عمل ينافي التحريمة على الأصح).
2. حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح، باب النوافل: ص: 529:
   ولو أخر سنة لا تكون سنة على الصحيح، والكلام بين السنة والفرض وكل عمل ينافي التحريمة لا يسقطها، ولكن ينقص ثوابها على الأصح.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:99
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-09-20

 




کیا کسی شخص کے دو وطنِ اصلی ہو سکتے ہیں؟:

سوال:
   کیا کسی شخص کے  بیک وقت دو وطنِ اصلی ہو سکتے ہیں؟
جواب:
   کتب فقہیہ میں وطنِ اصلی کی تعریف یہ کی گئی ہے کہ انسان کی  جائے ولادت یا جہاں اس نے شادی کر کے رہنے کی نیت کرلی ہو یا کسی جگہ مستقل سکونت اختیار کرلی ہو، تو یہ جگہ وطنِ اصلی بن جاتی ہے۔
اس تعریف کی رو سے اگر کسی شخص نے دو یا دو سے زیادہ جگہوں پر مستقل رہائش کی نیت  سے سکونت اختیار کی ہو، اس طور پر کہ کبھی ایک جگہ رہتا ہو اور کبھی دوسری جگہ،  تو یہ دونوں جگہیں اس کے لیے وطنِ اصلی کہلائیں گی  اور دونوں جگہ  پوری نماز پڑھے گا اگر چہ پندرہ دن کم رہنے کی نیت کی ہو۔

حوالہ جات:
1. بدائع الصنائع للكاساني، كتاب الصلاة، الكلام في الأوطان1/ 280:
   ثم الوطن الأصلي يجوز أن يكون واحدا أو أكثر من ذلك، بأن كان له أهل ودار في بلدتين أو أكثر، ولم يكن من نية أهله الخروج منها، وإن كان هو ينتقل من أهل إلى أهل في السنة، حتى إنه لو خرج مسافرا من بلدة فيها أهله، ودخل في أي بلدة من البلاد التي فيها أهله، فيصير مقيما من غير نية الإقامة.
2. الدر المختار للحصكفي مع الرد المختار، كتاب الصلاة، في الوطن الأصلي ووطن الإقامة 2/ 739:
   (الوطن الأصلي) هو موطن ولادته أو تأهله أو توطنه (يبطل بمثله) إذا لم يبق له بالأول أهل، فلو بقي، لم يبطل، بل يتم فيهما.
   قال ابن عابدين تحت قوله؛ (أو تأهله) أي: تزوجه، قال في شرح المنية: ولو تزوج المسافر ببلد، ولم ينو الإقامة به، فقيل: لايصير مقيما، وقيل: يصير مقيما، وهو الأوجه، ولو كان له أهل ببلدتين، فأيتهما دخلها صار مقيما.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:98
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-09-20

 




دخولِ وقت سے پہلے اذان شروع کرنے کا حکم:

سوال:
   اگر کسی نے وقت داخل ہونے سے پہلےاذان شروع کردی، اور جب اذان ختم کر دی تو وقت داخل ہوا تھا، تو کیا اس اذان کو دوبارہ لوٹانا ضروری ہے یا نہیں؟ 
جواب:
   کسی بھی نماز کی اذان نماز کا وقت داخل ہونے کے بعد دینی چاہیے، اگر اذان وقت سے پہلے دی گئی یا اذان کے دوران وقت داخل ہوا تو اذان ادا نہیں ہوئی، لہذا مذکورہ صورت میں چونکہ اذان وقت داخل ہونے سے پہلے شروع کی گئی تھی، اس لیے اس اذان کا اعادہ کرنا ضروری ہے۔

حوالہ جات:
1. البحر الرائق لابن نجيم، كتاب الصلاة، باب الأذان 1/ 456 ،457:
   (ولا يؤذن قبل وقت، ويعاد فيه)،أي: في الوقت إذا أذن قبله؛ لأن يراد الإعلام بالوقت فلا يجوز قبله.
2. الفتاوي الهندية للجنة العلماء، كتاب الصلاة، باب الأذان 1/ 53:
   تقديم الأذان على الوقت في غير الصبح لا يجوز اتفاقا، وكذا في الصبح عند أبي حنيفة و محمد رحمهما الله تعالى، وإن قدم يعاد في الوقت، هكذا في شرح مجمع البحرين لابن مالك.
3. الدر المختار للحصكفي، كتاب الصلاة، باب الأذان 2/ 62:
   (لا) يسن (لغيرها) كعيد (فيعاد أذان وقع) بعضه (قبله) كالإقامة خلافا للثاني في الفجر.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:97
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-09-20




وطن اقامت میں پندرہ دن سے کم رہنے کی صورت میں نماز کا حکم:

سوال:
   زید مردان میں ہاسٹل میں رہتا ہے، جبکہ اس کا اپنا علاقہ گلگت ہے، اور ہاسٹل میں پندرہ (15) دن سے زیادہ عرصہ  گزارا ہے، اب جب زید واپس گلگت جاکر واپس مردان میں ہاسٹل میں صرف ایک ہفتہ گزارنا چاہتا ہے، تو زید قصر کرےگا یا اتمام؟
جواب:
   زید نے جب مردان ہاسٹل میں سکونت اختیار کرکے ایک مرتبہ پندر(15) دن یا اس سے زیادہ عرصہ گزارا، تو مردان اس کا وطن اقامت بن گیا اور وطن اقامت بننے کے بعد جب تک یہاں سے مکمل طور پر سامان وغیرہ لے کرسکونت ختم  نہ کیا ہو، تو محض کچھ عرصہ کے لیے جانے گلگت جانے سے اس کا وطن اقامت ختم نہیں ہوگا، لہذا مذکورہ صورت میں زید اگر ایک ہفتہ بھی مردان ہاسٹل میں گزارے گا، تو پوری نماز پڑھے گا۔

حوالہ جات:
1. البحر الرائق لابن نجیم، کتاب الصلاة، باب المسافر 2/ 239:
   وقيل: تبقى وطنا له؛ لأنها كانت وطنا له بالأهل والدار جميعا، فبزوال أحدهما لا يرتفع الوطن، كوطن الإقامة تبقى ببقاء الثقل، وإن أقام بموضع آخر.
2. الدر المختار للحصکفي، كتاب الصلاة، باب صلاة المسافر 2/ 739:
   (الوطن الأصلي) هو موطن ولادته، أو تأهله، أو توطنه، (يبطل بمثله) إذا لم يبق له بالأول أهل، فلو بقي لم يبطل بل يتم فيها (لا غير) (و) يبطل (وطن الإقامة بمثله و) بإنشاء (السفر)، الأصل أن الشيء يبطل بمثله، وبما فوقه لا بما دونه.
   قال ابن عابدين تحت قوله: (أو توطنه) أي: عزم  على القرار فيه، وعدم الارتحال، وإن لم يتأهل.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:96
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-09-20

 




حالت ِسفر میں سنتیں پڑھنے کا حکم:

سوال:
   سفرکی حالت میں سنت نماز پڑھنے کا کیا حکم ہے؟
جواب:
   مسافر اگرکسی جگہ اطمینان کے ساتھ ٹھہرا ہوا ہو، تو فرائض کے ساتھ سنتیں بھی پڑھنا افضل ہے  اور اگر جلدی میں ہو، یا سفر جاری ہو، توسنتیں چھوڑنے میں کوئی حرج نہیں ہے، البتہ فجر کی سنتوں کے بارے میں احادیث میں بہت تاکید آئی ہے، اس لیےسفر میں بھی فجر کی سنتوں کا اہتمام کرنا چاہیے۔

حوالہ جات:
1. البحر الرائق لابن نجیم، کتاب الصلاة، باب المسافر 2/ 230:
   وفي التنجيس: والمختار أنه إن كان حال أمن وقرار يأتي بها؛ لأنها مكملات، والمسافر إليه محتاج، وإن كان حال خوف لايأتي بها؛ لأنها ترك لعذر.
2. الدر الختار للحصكفي، كتاب الصلاة، باب المسافر 2/ 737:
   (ويأتي) المسافر (بالسنن) إن كان (في حال أمن وقرار، وإلا) بأن كان في خوف وفرار (لا) يأتي بها، وهو المختار؛ لأنه ترك لعذر”تنجيس” قيل: إلا سنة الفجر.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:95
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-09-20

 




تکلیف کی وجہ سے آنکھ سے نکلنے والے پانی کا وضو پر اثر:

سوال:
   وہ پانی جو آنکھ میں درد ہونے کی وجہ سے نکلے اس کا کیا حکم ہے؟
جواب:
   اس مسئلہ میں کتب فتاوی میں قدرے اختلاف پایا جاتا ہے، بعض حضرات نے اس کو مطلقا ناقض وضو قرار دیا ہے اور بعض حضرات نے اس میں تفصیل کی ہے اور یہ فرمایا ہے کہ اگر آنکھ سے نکلنے والا پانی کا رنگ زرد یا سرخ ہو تو اس سے وضو ٹوٹتاہے ورنہ نہیں، لیکن احتیاط کا تقاضہ یہ ہے، کہ اگر آنکھ میں درد یا زخم ہو تو صاف پانی  نکلنے کی صورت میں بھی ا س  کو ناقض وضو قرار دیا جائے، نیز اگر یہ آنسو مسلسل آرہے ہوں تو معذور کے حکم پر بھی عمل کیا جاسکتا ہے۔

حوالہ جات:
1. الدرالمختار للحصکفي، کتاب الطھارة، نواقض الوضوء 1/ 305:
   (وإن خرج به) أي بوجع (نقض)؛ لأنه دليل الجرح.
2. ردالمحتار لابن عابدين، كتاب الطهارة 1/ 306:
   وظاھرہ أن المدار على الخروج لعلة وإن لم يكن معه وجع.
3. النهر الفائق للزيلعي، كتاب الطهارة  1/ 53:
   ولو في عينه رمد أو عمش يسيل منها الدموع، قالوا: يؤمر بالوضوء.
4. الفتاوى التاتارخانية، كتاب الطهارة، الفصل الثاني، ما يوجب الوضوء 1/ 244:
   وفي نوادر هشام عن محمد: الشيخ إذا كان في عينه رمد أو عمش، ويسيل منهما الدموع، آمره بالوضوء لوقت كل صلاة.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:94
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-09-19

 




چوری یا ڈکیتی میں مارےجانے والے کی نمازِ جنازہ کا حکم:

سوال:
   اگر کوئی شخص چوری یا ڈکیتی میں مارا جائے، تو اس کی نماز جنازہ کا کیا حکم ہے؟
جواب:
   اگر کوئی شخص  ڈکیتی کے دوران مارا جائے، تو اس کو  زجرا نہ غسل دیا جائے اور نہ نمازِ جنازہ پڑھی جائے، البتہ اگر بعد ميں ان كو قتل كيا جائے يا خود مرجائيں تو ان كو غسل ديا جائے گا اور نماز جنازه بھی پڑھی جائے گی، تاہم اگر چور چوری کرتے ہوئے مارا جائے، تو اس کی نمازِ جنازہ پڑھی جائے گی، لیکن جنازہ میں پیشوا اور مقتدا لوگ شرکت نہ کریں، تاکہ لوگ اس سے عبرت حاصل کر کے اس برے عمل سے  اپنے آپ کو بچائیں۔

حوالہ جات:
1. تبيين الحقائق للزيلعي، كتاب الصلاة، باب الشهيد 1/ 596:
   قالؒ: (لا لبغي وقطع طريق) أي: لا من قتل لأجل بغي، بأن كان مع البغاة، ولا من قتل لأجل قطع طريق، فإنهما لا يغسلان، ولا يصلى عليهما أيضا إهانة لهما … وقيل: هذا إذا قتلا في حالة المحاربة قبل أن تضع الحرب أوزارها، وأما إذا قتلا بعد ثبوت يد الإمام عليهما، فإنهما يغسلان، ويصلى عليهما، وهذا تفصيل حسن أخذ به الكبار من المشايخ.
2. شرح بلوغ المرام لعية سالم، الصلاة خلف السلطان الفاجر ومن نصبه إماماً وهو فاجر 10/88:
  وقد جاء في الأثر: (صلوا خلف كل بر وفاجر، وصلوا على كل بر وفاجر) ، فإذا مات فاجر أنقول: هذا فاجر لا نصلي عليه ولانجهزه؟ بل نجهزه، ونصلي عليه؛ لأنه له حقاً علينا في ذلك.
3. الهداية لعلي بن أبي بكر المرغيناني، كتاب الصلاة، باب الشهيد 1/ 434:
   ومن قتل من البغاة أو قطاع الطريق، لم يصل عليه؛ لأن عليا رضي الله عنه لم يصل على البغاة.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:93
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-09-19

 




ناراض مقتدیوں کی امامت کرنےکا حکم:

سوال:
   اگر کسی امام سے محلے والے ناراض ہوں، تو اس امام کی امامت کا شرعا کیا حکم ہے؟  
جواب: 
   اگر کسی امام سے سارے یا اکثر محلے والے کسی دینی حکم کی وجہ سے ناراض ہوں، جیسے امام کسی گناہِ کبیرہ میں مبتلا ہو، یا اس کا عقیدہ درست نہ ہو، تو یہ ناراضگی معتبر ہے اور اس قسم کے امام کی امامت مکروہ تحریمی ہے، اور اگر ناراضگی امام سے کسی ذاتی مسئلہ کی بنیاد پر ہو، تو ایسی ناراضگی معتبر نہیں، مقتدیوں کو چاہیے کہ اپنے طرز عمل کو تبدیل کرکے امام سے معافی مانگیں اور اس کو راضی کریں۔

حوالہ جات:
1. بذل المجهود لخليل أحمد السهارنفوري، كتاب الصلاة، باب الإمامة 4/ 143، تحت الرقم: 593:
   عن عبدالله بن عمرو أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يقول :ثلاثة: لا يقبل الله منهم صلاة، من تقدم قوما، وهم له كارهون إلخ، وقد قيد ذلك جماعة من أهل العلم بالكراهة الدينية بسبب شرعي، فأما الكراهة لغير الدين فلا عبرة بها، وقيدوه أيضا بأن يكون الكارهون أكثر المأمومين… وعند الحنفية الكراهة تحريمية.
2. الدر المختار للحصكفي، كتاب الصلاة، باب الإمامة 3/ 527:
   (ولو أمّ قوما، وهم له كارهون إن) الكراهة (لفساد فيه، أو لأنهم أحق بالإمامة منه، كره) له ذلك تحريما؛ لحديث أبي داود:­ ”لا يقبل الله صلاة من تقدم قوما، وهم له كارهون“ (وإن هو أحق لا) والكراهة عليهم.
3. البحر الرائق  لزين الدين ابن نجيم، كتاب الصلاة، باب الإمامة 1/ 609:
   وفي الخلاصة وغيرها: رجل أم قوما، وهم له كارهون، إن كانت الكراهية لفساد فيه، أو لأنهم أحق بالإمامة، يكره له ذلك، وإن كان هو أحق بالإمامة، لا يكره له ذلك اه، وفي بعض الكتب: والكراهة على القوم، وهو  ظاهر؛ لأنها ناشئة عن الأخلاق الذميمة، وينبعي أن تكون تحريمية في حق الإمام في صورة الكراهة؛ لحديث أبي داود.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:92
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-09-19

 




منی نکلنے سے غسل کب فرض ہوگا؟:

سوال:
   اگر زید کسی عورت سے ہنسی مذاق یا شہوت انگیز باتیں کر رہا ہو، جس کی وجہ سے اس کی منی خارج ہوگئی، تو اس پر غسل لازم ہے یا نہیں؟ اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ پیٹ کی خرابی یا کسی اور وجہ سے شہوت کی بغیر بھی منی کے قطرات نکل آتے ہیں، تو ایسی صورت میں اس پر غسل واجب ہے یا نہیں؟
جواب:
   کسی اجنبی عورت سے شہوت انگیز باتیں کرنا نا جائز ہے، جس پر دل سے استغفار کرنا ضروری ہے، تاہم اگر اس کی وجہ سے منی قوت كے ساتھ نکل آئے تو اس سے غسل واجب ہوگا، اور اگر منی نہیں نکلی بلکہ مذی نکلی (جو ملاعبت کے دوران نکلتی ہے اور اس سے شہوت  ختم نہیں ہوتی) تو اس سے غسل اگرچہ واجب نہیں ہوگا، لیکن اس جگہ کو دھونا ضروری ہوگا، جہاں مذی لگی ہے، لیکن اگر منی کے قطرے بغیر لذت کے پیٹ کی خرابی یا وزنی چیز اٹھانے کی وجہ سے نکلے، تو غسل واجب نہیں ہوگا۔

حوالہ جات:
1. الهداية لعلي بن أبي بكر المرغيناني، كتاب الطهارة، فصل في الغسل 1/ 45:
   (والمعاني الموجبة للغسل: إنزال المني على وجه الدفق والشهوة من الرجل والمرأة حالة  النوم واليقظة).
2. تبيين الحقائق للزيلعي، كتاب الطهارة 1/ 65:
   (وفرض) أي: الغسل (عند مني ذي دفق وشهوة عند إنفصاله) … والشهوة شرط عندنا.
3. بدائع الصنائع للكاساني، كتاب الطهارة، باب احكام الغسل 1/ 146:
    خروج المني عن شهوة دفقا من غير إيلاج بأي سبب حصل الخروج كاللمس والنظر والإحتلام حتى يجب الغسل بالإجماع۔

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:91
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-09-19