@123 کاروباری غرض کے لیے کیے گئے قرض کو زکوۃ سے منھا کرنا
سوال:
ایک شخص کا تیس لاکھ روپے کا کاروبار ہے اور ایک ٹرک کا مالک بھی ہے، جس کی قیمت ساٹھ لاکھ (6000000) روپے ہے، اس نے اس ٹرک میں دس لاکھ (100000) ادا کیے ہے اور پچاس لاکھ (5000000) اس کے ذمہ باقی ہے، اور وہ یہ قسط وار پندرہ (15) مہینوں میں ادا کرے گا، اس شخص کی ملکیت میں ایک موٹر کار بھی ہے، جو اپنے استعمال کے لیے ہے، اب یہ شخص زکوۃ ادا کرے گا یا نہیں، آپ حضرات نے تو واجب نہ ہونے کا فتوی دیا ہے، لیکن مفتی تقی عثمانی صاحب نے اصلاحی خطبات جلد نمبر نو (9) بعنوان ” آپ زکوۃ کس طرح ادا کریں؟ “ کے ذیل میں جو قرضوں کی تقسیم کی ہے، اس کی وجہ سے میرے خیال میں اس شخص پر زکوۃ واجب ہے، آپ حضرات دوبارہ نظر ثانی کرکے جواب عنایت فرمائیں۔
تنقیخ: مذکورہ ٹرک تجارت کے لیے نہیں خریدا ہے، بلکہ اس کے ذریعے سے اپنی دکان کے لیے سامان لاہور وغیرہ سے لاتے ہیں، اور دوسرے لوگوں کا سامان بھی کرایہ پر ادھر ادھر لے جاتے ہیں۔
جواب:
واضح رہے کہ قسطوں کا قرضہ دین مؤجل ہے، اور دین مؤجل زکوۃ واجب ہونے سے مانع نہیں ہے، لہٰذا مذکورہ صورت میں ایک سال کی ادا طلب قسطوں کی رقم منھا کرکے حساب لگایا جائے، اگر بقایا رقم تنہا یا دیگر اموال کے ساتھ مل کر نصاب کے مقدار کو پہنچتی ہو تو اس پر زکوۃ واجب ہوگی ورنہ نہیں۔
حوالہ جات:
لما في الدر المختار مع رد المحتار، كتاب الزكاة 2/ 259:
(وسببه) أي سبب افتراضها (ملك نصاب حولي) … (فارغ عن دين له مطالب من جهة العباد) سواء كان لله كزكاة … وخراج أو للعبد، ولو كفالة أو مؤجلا.
قال ابن عابدين تحت قوله: (أو مؤجلا إلخ) عزاه في المعراج إلى شرح الطحاوي، وقال: وعن أبي حنيفة لا يمنع، وقال الصدر الشهيد: لا رواية فيه، ولكل من المنع وعدمه وجه، زاد القهستاني عن الجواهر، والصحيح أنه غير مانع.
واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی
فتوی نمبر:184
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-12-12