@123 میت کا تیجہ، ساتواں، گیارہو اں کرناکیسا ہے؟
سوال:
میت کا تیجہ، ساتواں، گیارہواں، چہلم وغیرہ میں اسی طرح محرم کے مہینے میں شیعہ یا مسلمانوں کی طرف سے کھیر وغیرہ غریب اور مالدار لوگوں پر تقسیم کی جاتی ہے، اور گھروں میں بھیجی جاتی ہے، تو کیا یہ جائز ہے، اور اس کے کھانے کا کیا حکم ہے؟
جواب:
واضح رہے کہ میت کے ایصالِ ثواب تو وہ ہر وقت، ہر موقع پر کرنا جائز ہے، اور میت کو اس کا فائدہ بھی پہنچتا ہے، لیکن اس کے لیے تیسرے دن اور چالیسویں دن اورسال وغیرہ کی تخصیص کرنا شرعا ثابت نہیں ہے۔
حوالہ جات:
لما في رد المحتار لابن عابدين، كتاب الصلاة، مطلب في الثواب على المصيبة 2/ 240:
ويكره اتخاذ الضيافة من الطعام من أهل الميت؛ لأنه شرع في السرور لا في الشرور، وهي بدعة مستقبحة، وروى الإمام أحمد وابن ماجه بإسناد صحيح عن جرير بن عبد الله قال: كنا نعد الاجتماع إلى أهل الميت، وصنعهم الطعام من النياحة.
وفي حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح، كتاب الصلاة، فصل في حملها ودفنها 1/ 618:
ويكره الضيافة من أهل الميت؛ لأنها شرعت في السرور لا في الشرور، وهي بدعة مستقبحة، وقال عليه السلام: لا عقر في الإسلام، وهو الذي كان يعقر عند القبر بقرة، أو شاة، ويستحب لجيران الميت والأباعد من أقاربه تهيئة طعام لأهل الميت يشبعهم يومهم وليلتهم؛ لقوله صلى الله عليه وسلم: اصنعوا لآل جعفر طعاما، فقد جاءهم ما يشغلهم، ويلح عليهم في الأكل؛ لأن الحزن يمنعهم، فيضعفهم، والله ملهم الصبر ومعوض الأجر.
واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی
فتوی نمبر:193
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2023-12-13