Notice: Function _load_textdomain_just_in_time was called incorrectly. Translation loading for the paroti domain was triggered too early. This is usually an indicator for some code in the plugin or theme running too early. Translations should be loaded at the init action or later. Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 6.7.0.) in /home/darulift/public_html/wp-includes/functions.php on line 6121
Author: admin - Darul Ifta Mardan Author: admin - Darul Ifta Mardan

@123نکاح سے پہلے عورت کو دیا ہوا سامان کس کا ہے؟

سوال:
زید کی ہندہ کے ساتھ منگنی ہوئی تھی، لیکن نکاح نہیں ہوا، پھر بعد میں آپس میں اختلاف پیدا ہوا، تو اب ہندہ کو جو اشیاء زید نے دی ہے، وہ واپس لے سکتا ہے؟
جواب:
واضح رہے کہ نکاح سے پہلے جو چیز لڑکی کو بطور ہبہ دی گئی ہو اگر وہ چیز موجود نہ ہو، بلکہ استعمال ہوکر ختم ہوگئی ہو، تو وہ واپس نہیں لیا جاسکتا، اور نہ اس کی قیمت واپس لی جاسکتی ہے، اور اگر وہ چیز موجود ہو تو اس کو واپس لیا جاسکتا ہے۔

حوالہ جات:
لما في البحر الرائق لابن نجيم، كتاب الهبة، باب الرجوع في الهبة 7/ 294:
(قوله فلو وهب ثم نكح رجع وبالعكس لا) أي لو نكح ثم وهب لا يرجع لأن المعتبر حالة الهبة وفي الأول لم تكن منكوحة بخلاف الثاني.
وفي تبيين الحقائق للزيلعي، كتاب الهبة، باب الرجوع في الهب 5/ 100:
(فلو وهب، ثم نكح رجع وبالعكس لا) أي لو وهب لأجنبية، ثم تزوجها يجوز له الرجوع في الهبة وبالعكس، وهو ما إذا وهب لزوجته، ثم أبانها ليس له الرجوع في الهبة.
وفي البناية لبدر الدين العيني، كتاب الهبة، باب الرجوع في الهبة 10/ 196:
(وكذلك ما وهب أحد الزوجين للآخر؛ لأن المقصود فيها الصلة كما في القرابة) يعني أن ما يهبها من الزوجين للآخر نظير القرابة بدليل التوارث من الجانبين من غير حجب وعدم قبول الشهادة (وإنما ينظر إلى هذا المقصود وقت العقد حتى لو تزوجها بعدما وهب لها فله الرجوع فيها) لوقوع الهبة لأجنبية، وكان مقصوده الغرض ولم يحصل.
وفي الدر المختار مع رد المحتار، كتاب النكاح، باب المهر 3/ 153:
(خطب بنت رجل وبعث إليها أشياء ولم يزوجها أبوها فما بعث للمهر يسترد عينه قائما) فقط وإن تغير بالاستعمال (أو قيمته هالكا) لأنه معاوضة ولم تتم فجاز الاسترداد (وكذا) يسترد (ما بعث هدية وهو قائم دون الهالك والمستهلك) لأنه في معنى الهبةقوله لأنه في معنى الهبة) أي والهلاك والاستهلاك مانع من الرجوع بها، وعبارة البزازية لأنه هبة اهـ ومقتضاه أنه يشترط في استرداد القائم القضاء أو الرضا، وكذا يشترط عدم ما يمنع من الرجوع، كما لو كان ثوبا فصبغته أو خالطته، ولم أر من صرح بشيء من غير ذلك فليرجع.
وفي البحر الرائق لابن نجيم، كتاب الهبة 7/ 290:
قوله صح الرجوع فيها) يعني صح الرجوع في الهبة بعد القبض إذا لم يمنع مانع من الموانع الآتية … وأشار بذكر الصحة دون الجواز إلى أنه يكره الرجوع فيها وظاهر كلام المبسوط وتبعه في النهاية أنها كراهة تنزيه.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:302
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-10




@123منت میں جگہ کی تخصیص کا اعتبار نہیں

سوال:
ایک شخص نے نذر مانی کہ اگر میری بیماری ٹھیک ہوجائے، تو میں ایک بکری بہادر بابا میں ذبح کروں گا، تو اب وہ ٹھیک ہو جانے کے بعد بہادر بابا کے بجائے کسی دوسری جگہ اس بکری کو ذبح کرکے غرباء کو کھلائے، تو جائز ہے؟
جواب:
واضح رہے کہ منت میں صرف منت مانے ہوئے کام کو کرنا ضروری ہوتا ہے، باقی قیودات کا اعتبار نہیں ہوتا، لہٰذا مذکورہ صورت میں اس منت کو کسی بھی جگہ پورا کیا جاسکتا ہے۔

حوالہ جات:
لما في رد المحتار لابن عابدين، كتاب النذر 3/ 735:
قوله ( لزم الناذر ) أي لزمه الوفاء به والمراد أن يلزمه الوفاء بأصل القربة التي التزمها لا بكل وصف التزمه؛ لأنه لو عين درهما أو فقيرا أو مكانا للتصدق أو للصلاة، فالتعيين ليس بلازم.
وفي مجمع الأنهر لداماد أفندي، كتاب النذر 1/ 548:
(ولو علقه بشرط لا يريده) هذه الجملة صفة شرط (كإن زنيت) أو شربت خمرا فلله علي كذا أو نذر (خير بين الوفاء) بأصل القربة التي التزمها لا بكل وصف التزمه.
وفي البحر الرائق لابن نجيم، كتاب النذر 4/ 321:
وأراد بقوله وفي أنه يلزمه الوفاء بأصل القربة التي التزمها لا بكل وصف التزمه لما قدمناه أنه لو عين درهما، أو فقيرا أو مكانا للتصديق، أو للصلاة، فإن التعيين ليس بلازم.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:301
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-10




مندر بنانے کے لیے ہندو کو زمین فروخت کرنے کا حکم:

سوال:
   مسلمان کا کسی ہندو کو زمین فروخت کرنا جو اس میں مندر بنائے، شرعا کیسا ہے؟
جواب:
   كسی غیر مسلم کو جائز اشیاء کی خرید وفروخت اگرچہ جائز ہے، لیکن اگر بیچنے والے کو یقین ہو کہ خریدنے والا اس زمین میں مندر بنائے گا، تو ایسے شخص کے ہاتھ زمین کو فروخت کرنا چونکہ گناہ کے کام پر اس کے ساتھ تعاون کرنا ہے، اس لیے ناجائز ہے۔

حوالہ جات:
1. رد المحتار لابن عابدين، كتاب الحظر والإباحة 6/ 392:
   (قوله وجاز إجارة بيت إلخ) هذا عنده أيضا؛ لأن الإجارة على منفعة البيت، ولهذا يجب الأجر بمجرد التسليم، ولا معصية فيه وإنما المعصية بفعل المستأجر وهو مختار، فينقطع نسبيته عنه، فصار كبيع الجارية ممن لا يستبرئها أو يأتيها من دبر، وبيع الغلام من لوطي، والدليل عليه أنه لو آجره للسكنى جاز وهو لا بد له من عبادته، … قال في المنح: وهو صريح في جواز بيع الغلام من اللوطي، والمنقول في كثير من الفتاوى أنه يكره وهو الذي عولنا عليه في المختصر.
2. البحر الرائق لابن نجيم، كتاب الحظر والإباحة، فصل في البيع 8/ 230:
   قال رحمه الله: (وإجارة بيت ليتخذ بيت نار أو بيعة أو كنيسة أو يباع فيه خمر بالسواد) يعني جاز إجارة البيت لكافر ليتخذ معبدا أو بيت نار للمجوس أو يباع فيه خمر في السواد وهذا قول الإمام وقالا: يكره كل ذلك لقوله تعالى {ولا تعاونوا على الإثم والعدوان}، وله أن الإجارة على منفعة البيت؛ ولهذا تجب الأجرة بمجرد التسليم ولا معصية فيه وإنما المعصية بفعل المستأجر وهو مختار فيه فقطع نسبة ذلك إلى المؤجر، وصار كبيع الجارية لمن لا يستبرئها أو يأتيها في دبرها أو بيع الغلام ممن يلوط به، والدليل عليه أنه لو أجره للسكنى جاز، ولا بد فيه من عبادته، وإنما قيده بالسواد؛ لأنهم لا يمكنون من ذلك في الأمصار.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:300
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-10




@123زبر دستی کسی سے لکھ کر طلاق دلوانا

سوال:
زید کو اس کی بیوی کے رشتہ داروں نے جان کی دھمکی دے کر ایک سادہ کاغذ پر اس سے تحریری طلاق دلوا دی، مگر زید نے زبان سے طلاق کا لفظ نہیں کہا، تو یہ طلاق واقع ہوئی یا نہیں؟
جواب:
مذکورہ صورت میں طلاق واقع ہونے کے لیے ضروری ہے کہ زبان سے طلاق دی گئی ہو، زبردستی کی صورت میں صرف تحریری طلاق لکھنا کافی نہیں ہے۔

حوالہ جات:
لما في البحر الرائق لابن نجيم، كتاب الطلاق 3/ 264:
وقيدنا بكونه على النطق لأنه لو أكره على أن يكتب طلاق امرأته، فكتب لا تطلق؛ لأن الكتابة أقيمت مقام العبارة باعتبار الحاجة، ولا حاجة هنا، كذا في الخانية، وفي البزازية أكره على طلاقها، فكتب فلانة بنت فلان طالق، لم يقع.
وفي رد المحتار لابن عابدين، كتاب الطلاق 3/ 236:
وفي البحر أن المراد الإكراه على التلفظ بالطلاق، فلو أكره على أن يكتب طلاق امرأته، فكتب، لا تطلق؛ لأن الكتابة أقيمت مقام العبارة باعتبار الحاجة ولا حاجة هنا كذا في الخانية.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:299
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-10




مسجد کے باتھ رومز کسی عیسائی کو ٹھیکہ پر دینا:

سوال:
   کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ بازار میں 3 منزلہ مسجد ہے، اس کی دوسری منزل میں سبیل اور وضو خانوں کے ساتھ باتھ رومز ہیں، بازار کے لوگ ان کو کثرت سے استعمال کرتے ہیں، جس سے مسجد میں گندگی اور بدبو پھیلتی ہے، انتظامیہ والے بھی تھک گئے، اب انتظامیہ والوں نے یہ مشورہ کیا ہے کہ یہ باتھ رومز کسی عیسائی کو ٹھیکہ پر دے دیے جائیں، اور وہ اس کے عوض میں سبیل، باتھ رومز اور استنجا خانوں کی صفائی کا کام کریں؟ اب پوچھنا یہ کہ مسجد کے انتظامیہ کا ان باتھ روموں کو ٹھیکے پر دینے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ اور غیر مسلم عیسائی وغیرہ کا مسجد کے وضو خانہ میں آنے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ جائز اور ناجائز، افضلیت اور غیر افضلیت۔
جواب:
   مذکورہ معاملہ شرعا درست نہیں کیونکہ اس کا جو معاوضہ مقرر کیا گیا ہے کہ اس کے بدلے وہ عیسائی وضوخانہ وغیرہ کی صفائی کرے گا یہ اجرت مجہول ہے، لہذا اس کی درست صورت یہ ہے کہ مسجد کے باتھ رومز اس کو متعین اجرت پر دیے جائیں اور وہ رقم مسجد کے فنڈ میں جمع کی جائے، باقی مسجد کے وضو خانہ وغیرہ کی صفائی کے لیے کسی مسلمان کو رکھا جائے تو زیادہ مناسب ہے کیونکہ کسی غیر مسلم کا مسجد کی حدود میں داخل ہونا احتیاط کے خلاف ہے۔  

حوالہ جات:
1. الهداية للمرغيناني، كتاب الإجارة، باب الإجارة الفاسدة 3/ 238:
   قال: ويجوز أخذ أجرة الحمام والحجام، أما الحمام فلتعارف الناس ولم تعتبر الجهالة لإجماع المسلمين. قال عليه الصلاة والسلام: ما رآه المسلمون حسنا فهو عند الله حسن.
2. الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب الوقف، فصل في أحكام المسجد 2/ 461:
   وللمتولي أن يستأجر من يخدم المسجد، يكنسه، ونحو ذلك بأجر مثله أو زيادة يتغابن فيها.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:298
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-10




مسافر قصر نماز کہاں سے شروع کرے گا ؟:

سوال:
   کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلے کہ بارے میں کہ ہمارا گاؤں (باباگام ) تقریبا چھ سو (600) سے لے کر آٹھ سو (800) مکانات پر مشتمل ہے، جس میں آبادی کی مقدار تقریبا تین ہزار کے قریب ہے، اور ہمارے گاؤں سے تقریبا آٹھ کلومیٹر پر ایک بازار (زیمدارہ) ہے، جس میں ضروریاتِ زندگی موجود ہیں، جیسے ڈاکخانہ، تھانہ اور ایک چھوٹا ہسپتال موجود ہیں، اس سے تقریبا چھ کلو میٹر دور ایک اور بڑا بازار (کمبڑ) ہے، گاؤں کے اکثر لوگ اس بڑے بازار(کمبڑ) سے اپنی ضروریات پوری کرتے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ جب ہم سفر پر جاتے ہیں یا واپس آتے ہیں، تو کس جگہ سے ہم قصر نماز شروع کریں گے، اپنے گاؤں (باباگام) کے حدود سے نکلتے وقت، یا اس چھوٹے بازار (زیمدارہ) سے نکلتے وقت، یا بڑے بازار (کمبڑ) سے نکلتے وقت۔
واضح رہے کہ گاؤں اور بڑے بازار کے درمیان سولہ (16) کلو میٹر کا فاصلہ ہیں، اور درمیان میں کھیت اور چھوٹی چھوٹی ندیاں بھی آتی ہیں۔
جواب:
   انسان جب اپنے شہر یا گاؤں کی آبادی سے نکل جائے تو وہاں سے اس پر سفر کے احکامات جاری ہونا شروع ہوجاتے ہیں، چونکہ مذکورہ گاؤں اور دونوں بازاروں کے درمیان فاصلہ زیادہ ہے، اس لیے مذکورہ گاؤں والے اپنے گاؤں کی آبادی کی حدود سے نکلنے پر قصر نماز شروع کریں گے، بازاروں کی حدود سے نکلنے کی ضرورت نہیں ہے۔

حوالہ جات:
1. المحيط البرهاني لابن مازة الحنفي، كتاب الصلاة، باب صلاةالمسافر 2/ 25:
   والصحيح ما ذكرنا أنه يعتبر مجاوزة عمران المصر إلا إذا كان ثمة قرية أو قرى متصلة بربض المصر، فحينئذٍ يعتبر مجاوزة القرى.
2. الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب الصلاة، باب صلاة المسافر1/ 139:
   قال محمد رحمه الله تعالى: يقصر حين يخرج من مصره،  ويخلف دور المصر، كذا في المحيط، وفي الغياثية هو المختار، وعليه الفتوى، كذا في التتارخانية، الصحيح ما ذكر أنه يعتبر مجاوزة عمران المصر لا غير إلا إذا كان ثمة قرية أو قرى متصلة بربض المصر، فحينئذ تعتبر مجاوزة القرى بخلاف القرية التي تكون متصلة بفناء المصر، فإنه يقصر الصلاة، وإن لم يجاوز تلك القرية، كذا في المحيط، وكذا إذا عاد من سفره إلى مصره لم يتم حتى يدخل العمران.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:297
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-10




مدرسہ کی وقف زمین مدرسہ کی ضروریات کے لیے فروخت کرنا:

سوال:
   کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ جو زمین مدرسہ کے لیے وقف کر دی گئی ہو، تو مدرسہ کا مہتمم اس زمین کا کچھ حصہ مدرسہ کی ضروریات کے لیے فروخت کر سکتا ہے؟
جواب:
   واضح رہے کہ جب کوئی زمین کو وقف کرتا ہے، تو وقف تام ہونے کے بعد موقوفہ زمین قیامت تک کے لیے واقف کی ملکیت سے نکل کر اللہ تعالی کی ملکیت میں داخل ہوجاتی ہے، اس کے بعد اس کی خرید وفروخت، ہبہ وغیرہ درست نہیں ہے، لہٰذا مذکورہ صورت میں وقف زمین کو مدرسہ کی ضروریات کے لیے فروخت کرنا درست نہیں ہے۔

حوالہ جات:
1. الهداية لعلي بن بكرالمرغيناني، كتاب الوقف 3/ 18:
   قال: (وإذا صح الوقف لم يجز بيعه ولا تمليكه، إلا أن يكون مشاعا عند أبي يوسف فيطلب الشريك القسمة فيصح مقاسمته).
2. المحيط لابرهاني لابن مازة الحنفي، كتاب الوقف 5/ 745:
   وإذا خرب أرض الوقف، وأراد القيم أن يبيع بعضاً منها ليرم الباقي بثمن ما باع ليس له ذلك؛ لأنا لو أطلقنا ذلك له أدى إلى أن يبطل الوقف كله، فإنه كلما خرب شيء منها باع بعض الباقي وعمر الباقي إلى أن لا يبقى الوقف.
3. البحر الرائق لابن نجيم، كتاب الوقف 5/ 223:
   وفي الذخيرة سئل شمس الأئمة الحلواني عن أوقاف المسجد إذا تعطلت وتعذر استغلالها هل للمتولي أن يبيعها ويشتري مكانها أخرى، قال نعم، قيل إن لم تتعطل ولكن يؤخذ بثمنها ما هو خير منها، هل له أن يبيعها، قال لا، ومن المشايخ من لم يجوز بيعه، تعطل أو لم يتعطل، وكذا لم يجوز الاستبدال بالوقف وهكذا فتوى شمس الأئمة السرخسي.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:296
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-10




@123مدت رضاعت کے بعد دودھ دینا کیسا ہے؟

سوال:
ایک بچہ پیدائشی کمزور ہے، اور اس کی عمر ڈھائی سال ہوگئی ہے، اس بچے کو دستوں کا عارضہ ہے، اور بہت لاغر بھی ہے، اس کمزوری کی وجہ سے کچھ عرصہ اور بھی اس کو والدہ کا دودھ پلایا جاسکتا ہے یا نہیں؟
جواب:
واضح رہے کہ بچے کو دودھ پلانے کا عرصہ دو سال ہے، اور اگر بچہ زیادہ کمزور ہو اور دودھ چھڑانے میں بچے کو بیماری کا اندیشہ ہو، تو ڈھائی سال تک دودھ پلانے کی گنجائش ہے، اس کے بعد ماں کا دودھ پلانا درست نہیں ہے، مذکورہ صورت میں اگر بچہ واقعی کمزور ہو اور اس کو دودھ کی ضرورت ہو، تو کسی جانور کا یا ڈاکٹر کے مشورہ سے ڈبہ کا دودھ پلایا جائے۔

حوالہ جات:
لما في البحر الرائق لابن نجيم، كتاب الرضاعة 3 /389:
فإن أراد فصالا عن تراض منهما وتشاور فلا جناح عليهما(البقرة: 233) فإنما هو قبل الحولين بدليل تقييده بالتراضي والتشاور وبعدهما لا يحتاج إليهما واختلفوا في إباحته بعد المدة واقتصر الشارح على المنع وهو الصحيح.
وفي البناية لبدر الدين العيني، كتاب الرضاعة 5/ 263:
(وهل يباح الإرضاع بعد المدة، قد قيل: لا يباح؛ لأن إباحته ضرورية) أي: لأن إباحة اللبن في المدة لضرورة الولد، والثابت بالضرورة يتقدر بقدر الضرورة، فلا يباح بعد المدة لزوال الضرورة، (لكونه جزء الآدمي) أي: لكون اللبن جزء الآدمي، والانتفاع به حرام، لأن الآدمي وجزءه لا يجوز أن يكون مبتذلا مهانا، وسواء كان الإرضاع من الأم، أو من الأجنبية.
وفي درر الحكام لملا خسرو، كتاب الرضاعة 1/ 356:
(ولا يباح الإرضاع بعده) أي بعد وقت مخصوص على الخلاف؛ لأن إباحته ضرورية؛ لأنه جزء الآدمي فيتقدر بقدر الضرورة.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:295
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-10




@123فرضیت حج سے پہلے حج ادا کرنے والے پر دوبارہ حج فرض نہیں

سوال:
زید نے اپنے باپ کے مال سے باپ کی موجودگی میں حج کیا، والد کے انتقال کے بعد زید کے پاس اتنا مال آگیا، جس سے حجِ فرض کے اخراجات پورے ہوسکتے ہیں، تو کیا زید پر دوبارہ حج کرنا لازم ہوگا؟
جواب:
حج کی فرضیت سے پہلے اگر کسی نے حج ادا کرلیا، تو حج کی فرضیت کے بعد دوبارہ اس کے لیے حج کرنا ضروری نہیں، البتہ دوبارہ حج کرتے ہوئے احتیاطا فرض حج کی نیت کرے، تو بہتر ہے۔

حوالہ جات:
لما في الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب المناسك 1/ 217:
الفقير إذا حج ماشيا ثم أيسر لا حج عليه هكذا في فتاوى قاضي خان.
وفي البناية لبدر الدين العيني، كتاب الحج 4/ 144:
ولو حج الفقير ماشيا سقط عنه حجة الإسلام، حتى لو استغنى بعد ذلك لا يلزمه ثانيا، ولو أحج غيره لا يسقط عنه.
وفي  مجمع الأنهر لداماد آفندي، كتاب المناسك 1/ 260:
ولو حج الفقير ثم استغنى لم يحج ثانيا؛ لأن شرط الوجوب التمكن من الوصول إلى موضع الأداء ألا ترى أن المال لا يشترط في حق المكي، وفي النوادر أنه يحج ثانيا.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:294
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-09




@123لڈوکھیلنا کیسا ہے؟

سوال:
لڈو کھیلنا کیسا ہے؟
جواب:
لڈو کھیلنے میں اگر ہار جیت پر پیسے لینے کا معاملہ نہ ہو، ایسی ہی اس میں مشغولیت کی وجہ سے نماز وغیرہ ادا کرنے میں غفلت اور سستی نہ آرہا ہو، تو کھبی کھبار کھیلنے کی گنجائش ہے۔

حوالہ جات:
لما في  تبيين الحقائق للزيلعي، كتاب الشهادة 6/ 31:
قال رحمه الله: (واللعب بالشطرنج والنرد وكل لهو) … روي أن ابن عمر رضي الله عنهما مر بقوم يلعبون الشطرنج فلم يسلم عليهم، وقال ما هذه التماثيل التي أنتم لها عاكفون؛ ولأنه لعب يصد صاحبه عن الجمع والجماعات، وعن ذكر الله عز وجل غالبا فيكون حراما كالنردشير والنردوأما منفعته التي ذكرها فمغلوبة تابعة والعبرة للغالب في التحريم ألا ترى إلى قوله تعالى {وإثمهما أكبر من نفعهما} [البقرة: 219] فاعتبر الغالب في التحريم، وهل رئي من يلعب بالشطرنج يصلي فضلا عن الجماعة، وإن صلى فقلبه متعلق به فكان في إباحته إعانة الشيطان على الإسلام والمسلمين ثم إن كان يقامر به سقطت عدالته، وإن لم يقامر، وكان متأولا، ولم يصده ذلك عن الصلاة لم تسقط عدالته.
وفي البحر الرائق لابن نجيم، كتاب الشهادة 8/ 235:
قال رحمه الله (واللعب بالشطرنج والنرد وكل لهو) يعني لا يجوز ذلك لقوله عليه الصلاة والسلام «كل لعب ابن آدم حرام إلا ثلاثا ملاعبة الرجل أهله وتأديبه لفرسه ومناضلته لقوسه» وأباح الشافعي الشطرنج من غير قمار ولا إخلال بالواجبات؛ لأنه يذكي الأفهام، والحجة عليه ما روينا.
وفي رد المحتار لابن عابدين، كتاب الشهادة 5/ 483:
(قوله شرط واحد) أي لحرمته. والحاصل أن العدالة إنما تسقط بالشطرنج إذا وجد واحد من خمسة: القمار وفوت الصلاة بسببه وإكثار الحلف عليه واللعب به على الطريق كما في فتح القدير، أو يذكر عليه فسقا كما في شرح الوهبانية بحر.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:293
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-09