Notice: Function _load_textdomain_just_in_time was called incorrectly. Translation loading for the paroti domain was triggered too early. This is usually an indicator for some code in the plugin or theme running too early. Translations should be loaded at the init action or later. Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 6.7.0.) in /home/darulift/public_html/wp-includes/functions.php on line 6121
Author: admin - Darul Ifta Mardan Author: admin - Darul Ifta Mardan

باہر ملک رہنے والا پاکستان میں صدقہ فطر کیسے ادا کرے؟ :

سوال:
   اگر کوئی شخص امریکہ میں رہتا ہو، اور اس کے والدین پاکستان میں ہوں، اور اس کے والدین اس کی طرف سے پاکستان میں صدقۂ فطر ادا کرنا چاہتے ہوں، تو آیا والدین پاکستانی قیمت کے اعتبار سے صدقہ فطر دیں گے یا امریکی قیمت کے اعتبار سے؟ 
جواب:
   صدقۂ فطر اگر قیمت کے اعتبارسے  ادا کرنا ہو، توجس شخص کی طرف سے صدقۂ فطر ادا کرنا ہے اسی کی جگہ کا اعتبار ہوگا، لہٰذا مذکورہ  صورت میں امریکہ میں رہنے والا شخص اگر عاقل بالغ ہو تو امریکہ میں پونے دو (1.75) کلو گندم کی جو قیمت بنتی ہے، وہی قیمت پاکستان میں دی جائے گی۔

حوالہ جات:
1. الدر المختار للحصكفي مع رد المحتار، كتاب الزكاة،  باب مصرف الزكاة والعشر 2/ 355:
   وفي الفطرة مكان المؤدي عند محمد، وهو الأصح.
   قال ابن عابدين تحت قوله: (مكان المؤدي) أي لا مكان الرأس الذي يؤدي عنه (قوله: وهو الأصح) بل صرح في النهاية والعناية بأنه ظاهر الرواية كما في الشرنبلالية، وهو المذهب كما في البحر.
2. البحر الرائق لزين الدين ابن نجيم، كتاب الزكاة، باب المصرف 2/ 436:
   وفي صدقة الفطر مكان الرأس المخرج عنه في الصحيح مراعاة لايجاب الحكم في محل وجود سببه. كذا في فتح القدير، وصحح في المحيط أنه في صدقة الفطر يؤدي حيث هوولا يعتبر مكان الرأس من العبد والولد لان الواجب في ذمة المولى …وحكى الخلاف في البدائع فعن محمد يؤدي عن عبيده حيث هو وهو الاصح.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:770
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-26

 




کفریہ کلمات کہنے کے بعد تین طلاقیں دینا :

سوال:
   زید کی بیوی نے کفریہ کلمات زبان سے نکالے، جس پر زید نے اس کو تین طلاقیں دے دیں، تو یہ تین طلاقیں واقع ہوئیں یا نہیں؟
جواب:
  صورتِ مسئولہ میں اگر بیوی نے واقعۃ ایسے کلمات زبان سے کہے ہوں جن  سے کفر کا اندیشہ ہو، تو ایسی صورت میں عورت مرتدہ ہو چکی ہے، اور مرتدہ عورت کے ساتھ شوہر کا  نکاح مکمل طور پر ختم نہیں ہوتا،  اس لیے مذکورہ تین طلاقیں واقع ہوچکی ہیں۔

حوالہ جات:
1. رد المحتار لابن عابدين،كتاب النكاح، باب نكاح الكافر3/ 193:
   قال في الفتح: ويقع طلاق زوج المرتدة عليها ما دامت في العدة؛ لأن الحرمة بالردة غير متأبدة فإنها ترتفع بالإسلام فيقع طلاقه عليها في العدة مستتبعا فائدته من حرمتها عليه بعد الثلاث حرمة مغياة بوطء زوج آخر.
2. النهر الفائق لابن نجيم، باب الأولياء والأكفاء2/ 211:
   أبت عن الإسلام وفرق بينهما ثم طلقها في العدة وقع مع أنه فسخ، وبوقوع طلاق المرتد مع أن الفرق بردته فسخ ولا خلاف في أنها بردتها فسخ ومع هذا يقع طلاقه عليها في العدة، كذا في (الفتح) ووجه في النكاح وقوع الطلاق من زوج المرتدة بأن الحرمة بالردة غير متأبدة؛ لارتفاعها بالإسلام فيقع طلاقه عليها في العدة مستتبعاً فائدة من حرمتها عليه بعد الثلاث حرمة مغياة بوطء زوج آخر.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:767
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-26




یہودی یا نصرانی عورت سے نکاح کرنا :

سوال:
   کسی یہودی یا عیسائی عورت کو مسلمان کئے بغیر اس سے نکاح کرنا جائز ہے یا نہیں؟
جواب:
   واضح رہے کہ اگر کوئی عیسائی یا یھودی عورت اپنے اصل مذہب پر برقرار ہو، یعنی عیسائی عورت حضرت عیسی علیہ السلام کو اپنا نبی مانتی ہو، اور انجیل کو آسمانی کتاب مانتی ہو، اسی طرح یہودی عورت حضرت موسی علیہ السلام کو اللہ کا نبی اور تورات کو اللہ کی کتاب مانتی ہو، تو ایسی کتابیہ سے نکاح کرنا جائز ہے، لیکن بلا ضرورت شدیدہ نکاح نہ کرنے میں احتیاط ہے، البتہ آج کل زیادہ تر یہود ونصاری صرف نام کے ہوتے ہیں، حقیقت میں لا دین اور دہریہ ہوتے ہیں، تو اس قسم کے یہود ونصاری سے کسی مسلمان کا نکاح کرنا جائز نہیں۔

حوالہ جات:
1. مصنف لابن أبي شيبة، من كان يكره النكاح في أهل الكتاب3/ 475:
عن عبيد الله بن عمر، عن نافع، عن ابن عمر، «أنه كان يكره نكاح نساء أهل الكتاب.
2. الدر المختار للحصكفي، كتاب النكاح، فروع طلق امرأته تطليقتين ولها منه… 3/ 45:
   (وصح نكاح كتابية) ، وإن كره تنزيها (مؤمنة بنبي) مرسل (مقرة بكتاب) منزل
3. الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب النكاح، القسم السابع المحرمات بالشرك1/ 281:
   يجوز للمسلم نكاح الكتابية الحربية والذمية حرة كانت أو أمة، كذا في محيط السرخسي. والأولى أن لا يفعل … وكل من يعتقد دينا سماويا، وله كتاب منزل كصحف إبراهيم – عليه السلام – وشيث وزبور داود – عليه السلام – فهو من أهل الكتاب فتجوز مناكحتهم.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:766
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-26




طلاق کے بعد نابالغ اولاد کا خرچہ کس پر ہے؟:

سوال:
   زید نے اپنی  بیوی کو طلاق دے دی اور زید کا چار سالہ بیٹا ہے جو ماں کے پاس ہے، تو زید بیٹے کا خرچہ دینے سے انکار کرتا ہے، کہتا ہے کہ جب بچہ ما ں کے ساتھ ہے تو خرچہ بھی اسی پر ہوگا، تو شرعی کیا حکم ہے؟
جواب:
   واضح رہے کہ طلاق کے بعد سات (7) سال تک بچے کی  پرورش کا حق ماں کو حاصل ہے، اور اس دوران بچے کے جملہ اخراجات باپ پر ہیں، لہذا مذکورہ صورت ميں باپ کا خرچہ دینے سے انکا ر کرنا کسی طرح درست نہیں۔

حوالہ جات:
1. البحر الرائق لابن نجيم، كتاب الطلاق، باب النفقة  4/ 218:
   (قوله ولطفله الفقير) أي تجب النفقة والسكنى والكسوة لولده الصغير الفقير لقوله تعالى: {وعلى المولود له رزقهن وكسوتهن بالمعروف} [البقرة: 233] فهي عبارة في إيجاب نفقة المنكوحات، إشارة إلى أن نفقة الأولاد على الأب … وأن الأب ينفرد بتحمل نفقة الولد، ولا يشاركه فيها أحد، وأن الولد إذا كان غنيا، والأب محتاجا لم يشارك الولد أحد في نفقة الوالد، ذكره المصنف في شرح المنار: قيد بالطفل، وهو الصبي حين يسقط من البطن إلى أن يحتلم.
2. الجوهرة النيرة لأبي بكر بن علي، كتاب النفقات 2/ 91:
   (قوله والأم والجدة أحق بالغلام حتى يأكل وحده ويشرب وحده ويلبس وحده ويستنجي وحده) قدره الخصاف بسبع سنين اعتبارا للغالب، والمراد بالاستنجاء أن يطهر نفسه من النجاسات.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:765
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-26




گونگے کے لیے بوقتِ نکاح ایجاب وقبول کا طریقہ:

سوال:
   کوئی لڑکا گونگا ہو اور بالغ ہو تو اس کا نکاح کس طرح ہوسکتا ہے، یعنی خود بول نہیں سکتا، تو قبول کس طرح کرے گا؟
جواب:
   گونگا شخص اگر لکھنا جانتا ہو تو لکھ کر نکاح کو قبول کرے، اور اگر لکھنا نہ جانتا ہو تو اشارے سے بھی نکاح قبول کرسکتا ہے۔

حوالہ جات:
1. المبسوط للسرخسي، كتاب الطلاق، باب طلاق الأخرس6/ 144:
   وإن كان الأخرس لا يكتب، وكانت له إشارة تعرف في طلاقه ونكاحه وشرائه وبيعه فهو جائز استحسانا.
2. بدائع الصنائع لابن علاء الهندي، كتاب النكاح، فصل ركن النكاح 2/ 231:
   كما ينعقد النكاح بالعبارة ينعقد بالإشارة من الأخرس إذا كانت إشارته معلومة، وينعقد بالكتابة.
3. البناية لبدر الدين العينى، كتاب الطلاق، طلاق الأخرس55/ 302:
(وطلاق الأخرس واقع بالإشارة) ش: إن كانت له إشارة تعرف في نكاحه وطلاقه وعتاقه وبيعه وشرائه، يقع استحسانا، سواء قدر على الكتابة أم لا.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:764
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-26




دوران عدت نکاح کا حکم:

سوال:
   زید نے فاطمہ کو طلاق مغلظ دے دی، اور عدت کے دوران عمر نےاس سے نکاح کیا، تو شریعت میں اس نکاح کا کیا حکم ہے؟
جواب:
   دورانِ عدت چونکہ نکاح باطل ہے، اس لیے عمر کا فاطمہ کے ساتھ نکاح کرنا درست نہیں۔

حوالہ جات:
1. المبسوط للسرخسي، كتاب الطلاق، باب من الطلاق6/ 131:
   نكاح المعتدة باطل.
1. بدائع الصنائع للکاساني، كتاب الطلاق، فصل في أحكام العدة3/ 204:
   أما أحكام العدة فمنها: أنه لا يجوز للأجنبي نكاح المعتدة لقوله تعالى: {ولا تعزموا عقدة النكاح حتى يبلغ الكتاب أجله} [البقرة: 235] قيل: أي: لا تعزموا على عقدة النكاح، وقيل: أي: لا تعقدوا عقد النكاح حتى ينقضي ما كتب الله عليها من العدة.
3. تبيين الحقائق للزيلعي، كتاب النكاح، فصل في المحرمات 2/ 108:
   (اعلم) أنه لا يجوز نكاح المعتدة من غيره على أي وجه لزمتها العدة، لقوله تعالى: {ولا تعزموا عقدة النكاح حتى يبلغ الكتاب أجله} [البقرة: 235].

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:763
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-26




بوقتِ نکاح مہر مقرر نہ کرنے کا حکم:

سوال:
   نکاح کے وقت اگر مہر کا تذکرہ نہ کیا ہو تو نکاح ہو گیا یا نہیں؟
جواب:
   نکاح کے وقت اگر مہر کا تذکرہ نہ كيا ہو تو نکاح درست ہے، لیکن مہر مثل لازم ہوگا، یعنی جو مہر اس لڑکی کے پدری رشتہ دار عورتوں میں سے اس کی بہن، چچا زاد بہن، پھوپھی زاد بہن کا ہو وہی اس کا ہوگا۔

حوالہ جات:
1. الدر المختارللحصكفي،كتاب النكاح، باب المهر3/ 137:
(و) الحرة (مهر مثلها) الشرعي (مهر مثلها) اللغوي: أي مهر امرأة تماثلها (من قوم أبيها) لا أمها إن لم تكن من قومه كبنت عمه، وفي الخلاصة: يعتبر بأخواتها وعماتها، فإن لم يكن فبنت الشقيقة وبنت العم، انتهى، ومفاده اعتبار الترتيب، فليحفظ.
2. الهداية لعلي بن أبي بكر المرغيناني،كتاب النكاح، باب المهر1/ 199:
   وإن تزوجها، ولم يسم لها مهرا، أو تزوجها على أن لا مهر لها، فلها مهر مثلها.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:762
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-24




بالغہ عورت کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر کرنا کیسا ہے ؟:

سوال:
   ایک لڑکی سولہ سال کی ہے اور والد نے اس کا نکاح زبردستی کر دیا تو کیا یہ نکاح منعقد ہوچکا ہے؟ اور ولی بالغہ لڑکی کا نکاح زبردستی کرسکتا ہے؟
جواب:
   شریعت نے بالغہ،عاقلہ لڑکی کو اپنی پسند اور مرضی کے مطابق نکاح کرنے کا حق دیا ہے، لہٰذا اس کا نکاح اس کی مرضی کے بغیر نہیں کرسکتا، اگر اس نے کر دیا تو یہ نکاح لڑکی کی اجازت پر موقوف ہوگا، اگر اس نے اجازت دے دی، تو نکاح درست ہو جائے گا، اور اگر انکار کیا تو درست نہیں ہوگا۔

حوالہ جات:
1. الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب النكاح، الباب الرابع في الأولياء في النكاح1/ 287:
   لا يجوز نكاح أحد على بالغة صحيحة العقل من أب أو سلطان بغير إذنها بكرا كانت أو ثيبا فإن فعل ذلك فالنكاح موقوف على إجازتها، فإن أجازته جاز، وإن ردته بطل.
2. مجمع الأنهر لعبد الرحمن بن محمد، كتاب النكاح، باب الأولياء والأكفاء، 1/ 490:
   ولا يجبر ولي بالغة على النكاح، بل يجبر الصغيرة عندنا ولو ثيبا؛ لأن ولاية الإجبار ثابتة على الصغيرة دون البالغة ولو بكرا.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:761
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-24




زانیہ کا زانی سے نکا ح کے بعد بچے کے نسب اور میراث کاحکم:

سوال:
   زید نے کسی عورت سے زنا کیا اور وہ عورت حاملہ ہوئی، پھر زید نے اس سے نکاح کیا اور بچہ پیدا ہوا، تو اب اس بچے کا نسب زید سے ثابت ہو گا یا نہی؟، نیز یہ بچہ زید کا وارث ہو گا؟
جواب:
   اگر بچہ نکاح کے چھ ماہ بعد پیدا ہوا ہو، تو اس کا نسب ثابت ہوگا، اور وارث بھی بنے گا، اور اگر چھ ماہ سے پہلے پیدا ہوا ہو، تو نہ نسب ثابت ہوگا، اور نہ وارث بنے گا، الا یہ کہ زید اس بچے کے باپ ہونے کا اقرار کرے اور زنا کا ذکر نہ کرے، تو پھر اس بچے کا نسب ثابت ہوگا، لیکن اگر وہ یہ اقرار کرے کہ یہ مجھ سے بطور زنا پیدا ہوا ہے، تو پھر نہ اس کا زید سے نسب ثابت ہوگا اور نہ وارث بنے گا۔

حوالہ جات:
1. الدر المختار للحصكفي، كتاب النكاح، فصل في المحرمات3/ 49:
   لو نكحها الزاني حل له وطؤها اتفاقا، والولد له(قوله: والولد له) أي: إن جاءت بعد النكاح لستة أشهر، مختارات النوازل، فلو لأقل من ستة أشهر من وقت النكاح، لا يثبت النسب، ولا يرث منه إلا أن يقول: هذا الولد مني، ولا يقول: من الزنى خانية، والظاهر أن هذا من حيث القضاء، أما من حيث الديانة فلا يجوز له أن يدعيه؛ لأن الشرع قطع نسبه منه، فلا يحل له استلحاقه به، ولذا لو صرح بأنه من الزنى لا يثبت قضاء أيضا  وإنما يثبت لو لم يصرح؛ لاحتمال كونه بعقد سابق أو بشبهة حملاً لحال المسلم على الصلاح، وكذا ثبوته مطلقاً إذا جاءت به لستة أشهر من النكاح؛ لاحتمال علوقه بعد العقد، وأن ما قبل العقد كان انتفاخاً لا حملاً، ويحتاط في إثبات النسب ما أمكن”.
2. الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب الطلاق، الباب الخامس عشر في ثبوت النسب1/ 540:
   ولو زنى بامرأة فحملت، ثم تزوجها فولدت إن جاءت به لستة أشهر فصاعدا ثبت نسبه، وإن جاءت به لأقل من ستة أشهر لم يثبت نسبه إلا أن يدعيه ولم يقل: إنه من الزنا، أما إن قال: إنه مني من الزنا فلا يثبت نسبه، ولا يرث منه كذا في الينابيع.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:760
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-24




سوتیلی خالہ سے نکاح کرنا کیسا ہے؟:

سوال:
   سو تیلی خالہ (ماں اور خالہ کی والدہ ایک ہولیکن باپ الگ الگ ہوں) سے نکاح کرنا جائز ہے یا نہیں ؟ اور آیت کریمہ میں ”خالاتکم“ سے کیا مراد ہے؟
جواب:
   خالہ چاہے سگی ہو یا سو تیلی اس سے نکاح کرنا جائز نہیں، اور قرآن کریم کی ذکر کردہ آیت سے دونوں قسم کی خالائیں مراد ہے۔

حوالہ جات:
1. قال الله تعالٰى:
   حرمت عليكم أمهتكم وبناتكم وأخوتكم وعمتكم وخلتكم. (النساء4/23).
2.  تفسير الخازن، النساء، آية: 23/ 358):
   وَخالاتُكُمْ جمع خالة، وهي كل امرأة شاركت الأم في أصلها فيدخل فيه جميع أخوات الأم وأخوات أمهاتها، وقد تكون الخالة من جهة الأب أيضا، وهي أخت أم الأب.
3. الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب النكاح، الباب الثالث في بيان المحرمات 1/ 273:
   (القسم الأول المحرمات بالنسب) وهن الأمهات والبنات والأخوات والعمات والخالات وبنات الأخ وبنات الأخت فهن محرمات نكاحا ووطئا ودواعيه على التأبيد فالأمهات:… وأما الخالات فخالته لأب وأم وخالته لأب وخالته لأم وخالات آبائه وأمهاته.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:759
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-02-24