Notice: Function _load_textdomain_just_in_time was called incorrectly. Translation loading for the paroti domain was triggered too early. This is usually an indicator for some code in the plugin or theme running too early. Translations should be loaded at the init action or later. Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 6.7.0.) in /home/darulift/public_html/wp-includes/functions.php on line 6121
Author: admin - Darul Ifta Mardan Author: admin - Darul Ifta Mardan

گزشتہ سالوں کی زکوٰۃ کس ریٹ کے حساب سے ادا کی جائے گی؟

سوال:
ایک آدمی کے پاس دس تولہ سونا ہے، نو سال پہلے اس کی قیمت (24) ہزار روپے تھی، اور (9) سال بعد (43) ہزار ہے، اب اس شخص پر گزشتہ سالوں کی زکوٰۃ لازم ہے کہ نہیں، اگر لازم ہے، تو کس حساب سے لازم ہے۔
جواب:
مذکورہ صورت میں اس بندے نے جتنی سالوں کی زکوٰۃ ادا نہیں کی ہے، ان تمام سالوں کی زکوٰۃ ادا کرنا اس پر فرض ہے، اور جس دن زکوٰۃ ادا کرے گا، اس دن کی قیمت کا اعتبار ہوگا، یعنی گزشتہ سالوں کی زکوٰۃ موجودہ ریٹ کے حساب سے ادا کرے گا، اور گزشتہ ہر سال کے بدلے ڈھائی فیصد زکوٰۃ ادا کرے گا، اور اس مقدار کو اگلے سال کی زکوٰۃ سے منہا کرے گا، اگر چند سالوں کی زکوٰۃ ادا کرنے کے بعد مال نصاب سے کم رہ جائے، تو مزید زکوٰۃ ادا کرنا لازم نہیں۔

حوالہ جات:
لما في الدر المختار للحصكفي مع رد المحتار، كتاب الزكاة، باب زكاة الغنم 3/ 251:
وتعتبر القيمة يوم الوجوب، وقالا:يوم الأداء، وفي السوائم يوم الأداء، وفي السوائم يوم الأداء إجماعا، وهو الأصح. قال ابن عابدين: تحت قوله (وهو الأصح)… وفي المحيط يعتبر يوم الأداء بالإجماع، وهو الأصح.
وفي بدائع الصنائع للكاساني، كتاب الزكاة، باب التصرف في مال الزكاة 2/ 115:
وأما وجوب الزكاة، فمتعلق بالنصاب إذ الواجب جزء من النصاب، واستحقاق جزء من النصاب، يوجب النصاب إذ المستحق كالمصروف، وبيان ذلك: أنه إذا كان لرجل مائتا درهم، أو عشرين مثقال ذهب، فلم يؤد زكاته سنتين يزكي السنة الأولى، وليس عليه للسنة الثانية شيء عند أصحابنا الثلاثة، وعند زفر يؤدي زكاة سنتين، وكذا هذا في مال التجارة، وكذا في السوائم، إذا كان له خمس من الإبل السائمة، مضى عليها سنتان ولم يؤد زكاتها، أنه يؤدي زكاة السنة الأولى، وذلك شاة، ولا شيء عليه للسنة الثانية، ولو كانت عشرا، وحال عليها حولان يجب للسنة الأولى شاتان، وللثانية شاة.
وفيه أيضا، كتاب الزكاة، فصل صفة الواجب في أموال التجارة 2/ 22:
وإنما له ولاية النقل إلى القيمة يوم الأداء، فيعتبر قيمتها يوم الأداء، والصحيح أن هذا مذهب جميع أصحابنا.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:356
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-23




نماز میں سورت فاتحہ کے بعد چند لمحات کے لیے خاموش رہنے سے سجدۂ سہو کا حکم

سوال:
ایک شخص نے نماز پڑھتے ہوئے جب سورۂ فاتحہ پوری کرلی، تو سورت پڑھنے میں چند لمحات کے لیے سوچنے لگا، لیکن تین مرتبہ سبحان اللہ سے کم مقدار خاموش رہا ہو، تو اس پر سجدۂ سہو آئے گا یا نہیں؟
جواب:
واضح رہے کہ فقہائے کرام نے تاخیر کی کم سے کم مقدار تین مرتبہ”سبحان ربي العظيم“ کے بقدر بتلائی ہے، اس لیے مذکورہ صورت میں نماز درست ہے، سجدۂ سہو کی ضرورت نہیں۔

حوالہ جات:
لما في الدر المختار للحصكفي، كتاب الصلاة، باب سجود السهو 2/ 677:
ثم الأصل في التفكر أنه منعه عن أداء ركن كقراءة آية، أو ثلاث، أو ركوع، أو سجود، أو عن أداء واجب كالقعود، يلزمه السهو؛ لاستلزام ذلك ترك الواجب، وهو الإتيان بالركن، أو الواجب في محله، وإن لم يمنعه عن شيء من ذلك بأن كان يؤدي الأركان ويتفكر، لا يلزمه السهو، وقال بعض المشايخ: إن منعه التفكر عن القراءة أو عن التسبيح يجب عليه سجود السهو، وإلا فلا.
وفي خاشیة منحة الخالق على البحر الرائق لابن عابدين، كتاب الصلاة، باب سجود السهو 2/ 173:
ولو شك في ركوعه، أو في سجود، وطال تفكره، يلزمه السهو… فرغ من الفاتحة، وتذكر ساعة ساكتا أي سورة يقرأ مقدار ركن، يلزمه السهو، ومنهم من فصله بالطول، وعدمه، وأطلق آخرا كصاحب خزانة الفتاوى فقال: تفكر في الصلاة، إن طال، يجب سجود السهو، وإلا فلا، والفاصل أنه إذا شغله عن شيء من فعل صلاة، وإن قل، يجب سجود السهو.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:431
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-23




عام راستے کی طرف پرنالہ نکالنا

سوال:
ہمارے گاؤں میں  زید نے گھر تعمیر کیا، جب زید گھر کی بنیاد رکھ رہا تھا، تو گاؤں والوں نے زید سے کہا کہ جہاں پر آپ گھر کی بنیاد رکھ رہے ہو، یہ آپ کی ملکیت ہے، مگر بنیاد دو تین فٹ راستے سے ہٹ کر رکھ دو تاکہ راستہ کھلا رہے، مگر زید نے لوگوں کی ایک  نہ مانی اور بنیاد بالکل راستے کے کنارے پر ڈال دی، گاؤں والوں نے برا نہ مانا، کیونکہ اس نے بنیاد اپنے حصہ زمین  میں رکھی تھی، مگر جب مکان مکمل ہوا تو زید نے پرنالیں عام راستے کے طرف نکالے، اب گاؤں والے  زید سے کہتے ہیں کہ آپ یہ پرنالیں گھر کے اندرونی حصہ کے طرف لگالیں، اور زید کہتا ہے کہ میں پرنالیں راستے کے طرف نکالوں گا، کیونکہ اس راستے میں جس طرح گاؤں والوں کا حق ہے اسی طرح میرا بھی ہے، اور راستہ بھی ایسا ہے جس پر آدھے گاؤں کی آمد ورفت ہے، کیا زید کے یہ بات درست ہے کہ اس راستے میں میرا بھی حق ہے؟ اور عام راستے کی طرف پرنالیں لگانا درست ہے یا نہیں؟  
جواب:
واضح رہے کہ راستہ چونکہ مشترکہ طور پر تمام لوگوں کی گزرگاہ ہے، اس لیے اس میں کوئی ایسا تصرف کرنا جس سے عام لوگوں کو تکلیف ہو جائز نہیں، احادیث میں ایسے شخص  کے لیے جو دوسروں کی تکلیف کا باعث بنے سخت وعید آئی ہے، لہذا عام راستے کے طرف پرنالہ نکالنا شرعا ناجائز ہے۔

حوالہ جات:
لما في سنن الكبرى للبيهقي، باب لا ضرر ولا ضرار، الرقم:11384:
عن أبي سعيد الخدري، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:  لا ضرر ولا ضرار، من ضار ضره الله، ومن شاق شق الله عليه .
وفي تبيين الحقائق لعثمان بن علي الزيلعي، كتاب البيوع، باب ما يحدث الرجل سي الطريق 6/ 142:
(باب ما يحدثه الرجل في الطريق) قال رحمه الله : (ومن أخرج إلى الطريق العامة كنيفا، أو ميزابا، أو جرصنا، أودكانا فلكل نزعه) أي: لكل أحد من أهل الخصومة مطالبته بالنقض كالمسلم البالغ العاقل الحر، أو الذمي؛ لأن لكل منهم المرور بنفسه وبدوابه، فيكون له الخصومة بنقضه كما في الملك المشترك.
وفي الهدايه لعلي بن أبي بكر المرغيناني، كتاب البيوع، باب ما يحدث الرجل في الطريق  4/ 473:
قال: ”ومن أخرج إلى الطريق الأعظم كنيفا، أو ميزابا، أو جرصنا، أو بنى دكانا فلرجل من عرض الناس أن ينزعه“ لأن كل واحد صاحب حق بالمرور بنفسه وبدوابه فكان له حق النقض،كما في الملك المشترك فإن لكل واحد حق النقض لو أحدث غيرهم فيه شيئا فكذا في الحق المشترك.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:363
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-23




خواب میں بغیر انزال کے جماع کرنے سےغسل واجب ہوگا؟

سوال:
زید نے خواب میں کسی عورت کے ساتھ جماع کیا، مگر ابھی انزال نہ ہوا تھا کہ زید بیدار ہوگیا، جب پیشاب کرنے لگا، تو قبل از پیشاب چند سفید باریک قطرے شرمگاہ سے خارج ہوگئے، تو اب زید پر غسل کرنا فرض ہے یا نہیں؟
جواب:
خواب میں جماع  کرنے کی صورت میں غسل اس وقت واجب ہوتا ہے جب کہ حقیقت میں انزال ہوا ہو، لہذا اگر زید کا انزال نہیں ہوا تھا تو اس غسل واجب نہیں۔

حوالہ جات:
لما في بدائع الصنائع للكاساني، كتاب الطهارة، أحكام الغسل 1/ 147:
إذا احتلم الرجل، ولم يخرج الماء من إحليله، لا غسل عليه.
وفي الفتاوى الهندية للجنة العلماء، كتاب الطهارة، باب الغسل 1/ 14:
إذا احتلم الرجل، وانفصل المني من موضعه، إلا أنه لم يظهر على رأس الإحليل، لا يلزمه الغسل.
وفي فتاوى قاضي خان لحسن بن منصور الأوزجندي، كتاب الطهارة، باب الغسل 1/ 285:
فإذا احتلم الرجل، وانفصل المني عن مكانه، إلا أنه لم يظهر على رأس الإحليل، فلا غسل عليه.
وفي فتح القدير لابن الهمام، كتاب الطهارة، باب الغسل 1/ 66:
لا يجب الغسل إذا انفصل المني عن مقره من الصلب بشهوة، إلا إذا خرج على رأس الذكر بالاتفاق.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:403
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-23




مسجد کے وضوخانہ میں ناپاک کپڑے دھونا

سوال:
ناپاک کپڑے مسجد میں دھونا شرعا کیسا ہے؟
جواب:
اگر مسجد سے مراد مسجد کا وضوخانہ یا غسل خانہ ہے، تو ان میں ناپاک کپڑے دھونے میں کوئی مضائقہ نہیں۔

حوالہ جات:
لما في الأشباه والنظائر لزين الدين ابن نجيم المصري، القول في أحكام المسجد ص: 320:
وإدخال نجاسة فيه يخاف منها التلويث.
و في الدر المختار للحصكفي، كتاب الصلاة، مطلب في أحكام المسجد 1/ 656:
قوله ( وإدخال نجاسة فيه ) عبارة الأشباه وإدخال نجاسة فيه يخاف منها التلويث.
وفي الفتاوي الهندية للجنة العلماء، كتاب الكراهية، الباب الخامس في آداب المسجد إلخ 5/ 321:
ولا يدخل الذي على بدنه نجاسة المسجد، كذا في خزانة المفتين.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:430
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-23




کھیل میں ہار جیت پر جانبین سے شرط لگانا

سوال:
ہمارے گاؤں کے نوجوان کرکٹ میں یہ شرط لگاتے ہیں، کہ جس نے میچ ہارا، تو وہ کولڈ ڈرنکس کی بوتل یا گیند وغیرہ لائے گا، اور جیتنے والی ٹیم کو دے گا، ان کا یہ شرط لگانا ٹھیک ہے یا نہیں؟

جواب:
کھیل کود میں ایک جانب سے شرط لگانا جائز ہے، لیکن جانبین سے شرط لگانا جوا ہونے کی وجہ سے ناجائزہے، اور مذکورہ صورت میں چونکہ جانبین سے شرط لگائی گئی ہے، اس لیے یہ صورت ناجائز ہے۔

حوالہ جات:
وفي تبيين الحقائق لعثمان بن علي الزيلعي، كتاب البيوع  6/ 32:
وحرم لو شرط المال من الجانبين، بأن يقول: إن سبق فرسك أعطيتك كذا، وإن سبق فرسي فأعطني كذا، إلا إذا
أدخلا ثالثا بينهما، وقالا للثالث: إن سبقتنا فالمالان لك، وإن سبقناك فلا شيء لنا عليك، ولكن أيهما سبق صاحبه
أخذ المال المشروط.
وفي البناية لبدر الدين العيني، فصل في اللعب بالشطرنج والنرد  12/ 254:
وإن كان اشتراط العرض من الإمام يجوز بالإجماع؛ لأن هذا مما يحتاج إليه، لأنه حث على الجهاد، وحرم لو
شرط المال من الجانبين بالإجماع، إلا إذا أدخلا ثالثا بينهما، وقال للثالث: إن سبقتنا فمالك، وإن سبقناك فلا شيء
لك، هو فيما بينهما أيهما سبق أخذ الجعل عن صاحبه.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:362
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-23




گھر کے ملازم سے پردہ کرنے کا حکم

سوال:
گھر میں نوجوان ملازم کو رکھنے کی صورت میں گھر کی عورتوں کے لیے اس سے پردہ کرنا ضروری ہے یا نہیں ؟
جواب:
واضح رہے کہ گھر کے ملازم کی حيثیت اجنبی جیسی ہے، لہذا اس سے اس طرح پردہ کرنا ضروری ہے جس طرح کسی اجنبی مرد سے  کیا جاتا ہے۔

حوالہ جات:
لما في مجمع الأنهر شرح ملتقى الأبحر، فصل في أحكام النظر ونحوه  2/541:
(والعبد مع سيدته كالأجنبي) من الرجال حتى لا يجوز لها أن تبدي من زينتها إلا ما يجوز أن تبديه للأجنبي، ولا يحل له أن ينظر من سيدته إلا ما يجوز أن ينظر إليه من الأجنبية.
وفي الإختيار  لتعليل المختار لعبد اللہ بن محمود، كتاب الكراهية  4/167:
( والعبد مع سيدته كالأجنبي ) لأن خوف الفتنة منه مثلها من الأجنبي، وبل أكثر؛ لكثرة الاجتماع والنصوص المحرمة مطلقة، والمراد من قوله تعالى: (أو ما ملكت أيمانهن)  الإماء دون العبيد،
قاله الحسن وابن جبير.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:361
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-23




قعدۂ اولی رہ جانے کی صورت میں کیا کرنا چاہیے؟:

سوال:
   زید چار رکعت والی نماز میں پہلا قعدۂ بھول گیا، مگر تیسری رکعت کی بعد وہ قعدۂ ادا کرليا، اور چوتھی رکعت کے بعد بھی قعدۂ کیا، اور سجدہ سہوہ بھی کیا، تو کیا اس کی نماز ہوئی یا نہیں؟
جواب:
   مذکورہ صورت میں زید کی نماز اگرچہ درست  ہے، تاہم زید کے لیے مناسب یہ تھا، کہ تیسری رکعت پر قعدۂ نہ کرتا، بلکہ نماز مکمل کرنے کے بعد آخر میں سجدۂ سہو کرلیتا تو بھی اس کی نماز درست ہوجاتی۔

حوالہ جات:
1. الفتاوى الهندية، كتاب الصلاة، باب سجودالسهو1/ 126:
   ويجب إذا قعد فيما يقام، أو قام فيما يجلس فيه، وهو إمام، أو منفرد، أراد بالقيام إذا استتم قائما، أو كان إلى القيام أقرب،  فإنه لا يعود إلى القعدة، هكذا في فتاوى قاضي خان، وسجد للسهو.
2. بدائع الصنائع للكاساني،  كتاب الصلاة، باب سجود السهو 1/ 401:
   وأما بيان سبب الوجوب، فسبب وجوبه، ترك الوجب الأصلي في الصلاة، أو تغييره، أو تغيير فرض منها عن محله الأصلي ساهيا؛ لأن كل ذلك يوجب نقصانا في الصلاة، فيجب جبره بالسجود، يخرج على هذا الأصل مسائل… فإن كان من أفعال، بأن قعد في موضع القيام، أو قام في موضع القعود سجد للسهو؛ لوجود تغيير الفرض، وهو تأخير القيام عن وقته، أو تقديمه على وقته مع ترك الواجب، وهو قعدة الأولى.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:355
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-23




مقیم کی اقتدا میں مسافر کی نماز فاسد ہونے سے قضا کا حکم:

سوال:
   ایک مسافر شخص عصر کی نماز میں مقیم امام کے پیچھے آخری قعدہ میں شریک ہوا، اور امام کے سلام پھیرنے کے بعد اس نے دو رکعت نماز پڑھ کر سلام پھیر دیا، جبکہ اس کے ذمہ چار رکعت نماز کی ادائیگی تھی، تو اب یہ مسافر شخص اس نماز کی قضا لاتے ہوئے چار رکعت پڑھے گا یا دو رکعت؟
جواب:
   واضح رہے کہ مذکورہ صورت میں اب اس شخص کے ذمہ چار نہیں، بلکہ دورکعت کی قضاء لازم ہے، اس وجہ سے کہ مسافر جب مقیم امام کی اقتداء کرلیتا ہے تو امام کی اتباع میں اس پر چار رکعت لازم ہوجاتی ہیں، لیکن اگرکسی بھی وجہ سے اس نے نماز توڑ دی، تو اس کے ذمہ مسافر ہونے کی وجہ سے صرف دو رکعت کی قضا آئے گی۔

حوالہ جات:
1. البحر الرائق لابن نجيم، كتاب الصلاة، باب المسافر،2/ 235:
   (ولو اقتدى مسافر بمقيم في الوقت صح، وأتم)؛ لأنه يتغير فرضه إلى الأربع للتبعية … وإذا كان التغيير لضرورة الاقتداء فلو أفسده صلى الركعتين لزواله.
2. الدر المختار للحصكفي مع رد المحتار، كتاب الصلاة، باب المسافر2 /736:
   وأما اقتداء المسافر بالمقيم، فيصح في الوقت، ويتم لا بعده فيما يتغير.
   قال ابن عابدين: تحت قوله: (فيصح  في الوقت، ويتم ) … ولو أفسده صلى ركعتين لزوال المغير، بخلاف ما لو اقتدى به متنفلا حيث يصلي أربعا، إذا أفسده؛  لأنه التزم صلاة الإمام.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:354
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-23




لے پالک بیٹے کو غیر حقیقی باپ کی طرف منسوب کرنا:

سوال:
   اولاد کسی کو دینا کیسا ہے، اور حقیقی والد کی جگہ سوتیلا باپ کا نام ڈومیسائل وغیرہ میں درج کرنا کیسا ہے؟
جواب:
   کسی بچے کو لے پالک بنانا درست ہے، تاہم شریعت کی رو سے حقیقت میں وہ اس شخص کا بیٹا اور وہ شخص اس کا باپ نہیں بنتا، بلکہ اس بچے کا حقیقی باپ وہی ہے جس کے نطفے سے وہ پیدا ہوا ہے اور بچے کا نسب بھی اس حقیقی باپ سے ثابت ہوگا، لہٰذا ڈومیسائل وغیرہ میں حقیقی باپ کی جگہ پرورش کرنے والے شخص کا نام لکھنا جائز نہیں، ایک روایت کے مطابق ایسے پر شخص پر جنت کو حرام کیا گیا ہے جس کی نسبت غیر باپ کی طرف کیا جاتی ہواور اس کو یہ بات معلوم بھی ہو۔

حوالہ جات:
قال الله تعالى:
   {وَمَا جَعَلَ أَدْعِيَآءَكُمْ أَبْنَآءَكُمْ ذَلِكُمْ قَوْلُكُم بِأَفْوَهِكُمْ وَاللَّهُ يَقُولُ الْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِى السَّبِيلَ * ادْعُوهُمْ لأًّبَآئِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِندَ اللَّهِ فَإِن لَّمْ تَعْلَمُواْءَابَاءَهُمْ فَإِخوَانُكُمْ فِى الدِّينِ وَمَوَلِيكُمْ وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَآ أَخْطَأْتُمْ بِهِ وَلَكِن مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ وَكَانَ اللَّهُ غَفُوراً رَّحِيماً *}  [الأحزاب: 4،5] .
2. صحيح البخاري، باب غزوة الطائف في شوال سنة ثمان، الرقم: 1804:
   عن عاصم قال: سمعت أبا عثمان قال: سمعت سعدا وهو أول من رمى بسهم في سبيل الله وأبا بكرة وكان تسور حصن الطائف في أناس فجاء إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقالا: سمعنا النبي صلى الله عليه وسلم يقول: “من ادعى إلى غير أبيه وهو يعلم؛ فالجنة عليه حرام”.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:401
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-19