Notice: Function _load_textdomain_just_in_time was called incorrectly. Translation loading for the paroti domain was triggered too early. This is usually an indicator for some code in the plugin or theme running too early. Translations should be loaded at the init action or later. Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 6.7.0.) in /home/darulift/public_html/wp-includes/functions.php on line 6121
Author: admin - Darul Ifta Mardan Author: admin - Darul Ifta Mardan

@123جدہ میں رہنےوالے ملازم کےلیےطوافِ وداع کاحکم

سوال:
ايک شخص جده میں ملازم ہے، بیس سال سے جدہ میں رہتا ہے، تو یہ شخص حج سے فارغ ہونے کے بعد جدہ واپس جارہا ہے، تو اس پر طوافِ وداع واجب ہے یا نہیں؟
جواب:
جو لوگ کسی میقات کے باہر سے آتے ہیں ان کے لیے تو طوافِ وداع واجب ہے لیکن جو لوگ میقاتوں کے اندر رہتے ہیں ان کے لیے طوافِ وداع مستحب ہے، لہذا مذکورہ صورت میں جدہ میں رہائش پذیر شخص کے لیے طوافِ وداع کرنا مستحب ہے۔

حوالہ جات:
لما في غنية الناسك لمحمد حسن بن مكرم شاه المهاجر المكي، باب طواف الصدر
هو واجب على كل حاج آفاقي مفرد أو قارن أو متمتع بشرط كونه مدركا مكلفا غير معذور، فلا يجب على معتمر، ولا على أهل مكة، ومن أقام بها قبل حل النفر الأول وأهل الحرم والحل والمواقيت … إلا أنه يندب لأهل مكة، ومن في حكمهم، كما في الدرر والنهر وغيرهما، ومعنى قولهم: ومن أقام بها أي: نوى الإقامة الأبدية بها، واتخذها دارا … ولا يسقط عنه هذا الطواف بنية الإقامة ولو سنين، ويسقط بنية الاستيطان بمكة، أو بما حولها، قبل حل النفرا الأول.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:469
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-29




@123بیوی کودورانِ زنا قتل کرناکیساہے؟

سوال:
کسی نے اپنی بیوی کو کسی مرد کیساتھ زنا کرتے ہوئے دیکھا، غصہ میں آکر اپنی بیوی اور زانی کو قتل کر دیا، تو اس قاتل سے قصاص لیا جائے گا یا نہیں؟
جواب:
واضح رہےکہ جب کوئی شخص اپنی بیوی کوکسی مرد کے ساتھ زنا کی حالت میں دیکھے جبکہ زناعورت کی مرضی سے ہورہی ہواوراسی حالت میں دونوں کوقتل کردے، تویہ قتل ہدر ہے یعنی قاتل پرکسی قسم کا ضمان واجب نہیں، لیکن اگرعین زنا کی حالت میں نہ دیکھا ہو، بلکہ بعد میں معلوم ہوا کہ فلاں مرد نے میری بیوی سے زنا کیا ہے، تو ان کو قتل کرنا جائز نہیں، بلکہ ان کو حکومت کے حوالہ کیا جائے گا، یا پنچائیت بناکر اس کے ذریعے انکو کوئی مناسب سزادی جائے گی۔

حوالہ جات:
لما في رد المختار لابن عابدين،  باب التعزير، مطلب يكون التعزير بالقتل 4/ 63:
رجل رأى رجلا مع امرأة يزني بها، أو يقبلها، أو يضمها إلى نفسه، وهي مطاوعة، فقتله، أو قتلهما، لا ضمان عليه.
وفي البحر الرائق لزين الدين ابن نجيم، كتاب الحدود، فصل في التعزير 5/ 45:
وفي المنية رأى رجلا مع امرأته، وهو يزني بها أو مع محرمه، وهما مطاوعتان، قتل الرجل والمرأة جميعا.
وفي الفتاوى الهندية للجنة علماء، كتاب الحدود، الباب السابع في حد القذف والتعزير 2/ 167:
سئل الهندواني رحمه الله تعالى: عن رجل وجد مع امرأته رجلا أيحل له قتله؟ قال: إن كان يعلم أنه ينزجر عن الزنا بالصياح والضرب بما دون السلاح لا يحل، وإن علم أنه لا ينزجر إلا بالقتل، حل له القتل، وإن طاوعته المرأة حل له قتلها أيضا، كذا في النهاية.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:468
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-29




@123کاریگری کے آلات پر زکوٰۃ کا حکم

سوال:
اگر کسی شخص نے آٹا پیسنے کی مشین لگائی ہے، سال گزرنے پر اس پر زکوۃ ہے یا نہیں ؟
جواب:
آٹا پیسنے کی مشین چونکہ کاریگری کے آلات میں آتی ہے اس لیے اس میں زکوٰۃ  فرض نہیں۔

حوالہ جات:

لما في الفتاوى التاتارخانية لعالم بن علاء الهندي، كتاب الزكاة، الفصل الثالث زكاة عروض التجارة 3/ 169:
وآلات الصناع الذين يعملون بها، وظروف الأمتعة لاتجب الزكاة.
وفي المحيط البرهاني لابن مازة الحنفي، كتاب الزكاة، الفصل الثالث: بيان مال الزكاة 3/ 166:
قال القدوري: وآلات الصناع الذين يعملون بها وظروف الأمتعة لا يجب فيها الزكاة؛ لأنها غير معدة للتجارة.
وفي بدائع الصنائع للكاساني، كتاب الزكاة، باب مال التجارة 2/ 95:
وأما آلات الصناع وظروف أمتعة التجارة لاتكون مال التجارة؛ لأنها لاتباع مع الأمتعة عادة.
وفي الدر المختار للحصكفي، كتاب الزكاة 2/ 264:
(ولا في ثياب البدن) … وكذلك آلات المحترفين إلا ما يبقى أثر عينه كالعصفر.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:444
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-29

 




اپنی ڈیوٹی پرکسی اورکو مقررکرکے تنخواہ میں سےکچھ حصہ اس کو دینا:

سوال:
   زيد ايک سركاری پوسٹ پر لگا ہے، مگر وہ خود کام کے لیے نہیں جاتا، بلکہ اس نے بکر کو مقرر کیا ہے وہ اس کی جگہ کام کرتا ہے، جب زید کو تنخواہ مل جاتی ہے، تواس میں سے بکر کو بھی کچھ حصہ دیتا ہے اور باقی خود لیتا ہے، کیا شرعا اس طرح کرنا جائز ہے؟
جواب:
   اگر مذکورہ محکمہ کے قوانین میں اس کی اجازت نہ ہو تو ایسی صورت میں سرکاری ملازم کا اپنی جگہ کسی اور کو ڈیوٹی پر بھیج کرتھوڑی سی تنخواہ دے کر باقی تمام تنخواہ خود وصول کرنا درست نہیں ہوگا، اور اگر محکمہ کی اجازت سے ہو تو گنجائش ہے۔

حوالہ جات:
1. مجلة الأحكام، باب في الإجارات، الفصل الرابع: في إجارة الآدمي 1/ 106:
   الأجير الذي استؤجر على أن يعمل بنفسه، ليس له أن يستعمل غيره.
2. البحر الرائق لزين الدين ابن نجيم، كتاب الإجارة 8/ 9:
   قال رحمه الله: (ولا يستعمل غيره إن شرط عمله بنفسه) يعني ليس للأجير أن يستعمل غيره، إذا شرط عليه أن يعمل بنفسه.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:467
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-29




نماز فجر کامستحب وقت:

سوال:
   فجر کی نماز طلوع شمس سے کتنے منٹ پہلے پڑھنا افضل ہے ؟
جواب:
   فجر کی نماز اسفار میں یعنی خوب روشنی میں پڑھنا مستحب ہے، تاہم نماز کا وقت ختم ہونے سے اتنی دیر پہلے پڑھی جائے کہ اگر کسی وجہ سے نماز فاسد ہو جائے تو وقت کے اندر اندر مسنون قرأت کے ساتھ نماز کا اعادہ کیا جاسکے، اور یہ دونوں کام تب ہی ہوسکتے ہیں کہ فجر کی نماز طلوع آفتاب سے تقریبا 30 سے40 منٹ پہلے شروع کردی جائے اور طلوع آفتاب سے تقریبا 15، 20 منٹ پہلے مکمل کرلی جائے۔

حوالہ جات:
1. شرح سنن أبي داود لبدر الدين العيني، كتاب الصلاة، باب في وقت الصبح 2/ 295:
   عن رافع بن خديج قال قال رسول الله ﷺ : أصبحوا بالصبح،  فإنه أعظم لأجوركم، أو أعظم للأجر.
   قال العيني تحت قوله: أصبحوا بالصبح أي نوروا به، وبه استدل أصحابنا على أن الإسفار بالصبح أفضل.
2. الدر المختار للحصكفي، كتاب الصلاة، مطلب: في طلوع الشمس من مغربها 2/ 30:
   (والمستحب) للرجل (الابتداء) في الفجر (بإسفار، والختم به) وهو المختار بحيث يرتل أربعين آية، ثم يعيده بطهارة لو فسد.
3. بدائع الصنائع للكاساني، كتاب الصلاة، بيان الأوقات المستحبة 1/ 322:
   وأما بيان الأوقات المستحبة: فالسماء لا تخلو إما إن كانت مصحية، أو مغيمة، فإن كانت مصحية،  ففي الفجر المستحب آخر الوقت، والإسفار بصلاة الفجر أفضل من التغليس بها في السفر والحضر والصيف والشتاء، في حق جميع الناس إلا في حق الحاج بمزدلفة،  فإن التغليس بها أفضل في حقه.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:443
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-29




@123مسجدمیں اخبارپڑھنےکاحکم

سوال:
مسجد میں اخبار لے جانا جس میں تصویریں ہوں اور مسجد میں اخبار پڑھنا کیسا ہے؟
جواب:
مسجد چونكہ اللہ تعالی کی عبادت کے لیے بنائی گئی ہے، جس کی تعظیم کا ہمیں حکم دیا گیا ہے اس لیے تصویردار اخبار مسجد لے جانا یا مسجد میں بیٹھ کر پڑھنا ممنوع ہے۔

حوالہ جات:
لما في الحلبي الكبير لإبراهيم الحلبي، فصل في أحكام المساجد، ص: 309:
فالحاصل أن المساجد بنيت لأعمال الآخرة مما ليس فيه توهم اهانتها وتلويثها مما ينبغي التنظيف منه، ولم تبن لأعمال الدنيا، ولو لم يكن فيه توهم تلويث واهانة على ما أشار إليه قوله عليه الصلاة والسلام: فإن المساجد لم تبن لهذا.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:466
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-29




@123سنتیں گھر میں پڑھنا افضل ہے یا مسجد میں؟

سوال:
ایک شخص فرض نماز مسجد میں ادا کرتا ہے، لیکن سنت گھر میں ادا کرتا ہے، تو کیا ایسا کرنا درست ہے؟ یا سنت کو بھی مسجد میں ادا کیا جائے؟
جواب:
واضح رہے کہ نبی اکرم ﷺ نے سنن ونوافل گھروں میں پڑھنے کی ترغیب فرمائی ہے اور خود آپ ﷺ کا معمول بھی یہی تھا، اس لیے نمازوں کی سنتیں گھر میں پڑھنا افضل ہے، البتہ اگر گھر جاکر سنتیں چھوٹ جانے کا اندیشہ ہو، یا گھر میں مسجد کی بنسبت خشوع وخضوع کم ہو، تو ایسی صورت میں سنت ونوافل مسجد ہی میں پڑھنا بہتر ہے ۔

حوالہ جات:
لما في صحيح البخاري، كتاب التهجد، باب التطوع في البيت، الرقم: 1187:
عن ابن عمر رضي الله عنهما قال: قال رسول الله ﷺ: اجعلوا في بيوتكم من صلاتكم، ولا تتخذوها قبورا.
 وفي الدر المختار للحصكفي، كتاب الصلاة، باب الوتر والنوافل 2/ 563:
والأفضل في النفل غير التراويح المنزل إلا لخوف شغل عنها، والأصح أفضلية ما كان أخشع وأخلص.
قال ابن عابدين تحت قوله: (والأفضل في النفل إلخ) شمل ما بعد الفريضة وما قبلها؛ لحديث الصحيحین: عليكم بالصلاة في بيوتكم، فإن خير صلاة المرء في بيته إلا المكتوبه … وحيث كان هذا أفضل يراعي مالم يلزم منه خوف شغل عنها لو ذهب لبيته، أو كان في بيته ما يشغل باله ويقلل خشوعه،  فيصليها حينئذ في المسجد؛ لأن اعتبار الخشوع أرجح.
وفي الحلبي الكبير لإبراهيم الحلبي، فصل في سنن الوضوء، ص: 346:
وأما سنن التي بعد الفريضة، فإنه إن تطوع بها في المسجد، فحسن، وتطوعه بها في البيت أفضل، وهذا غير مختص بما بعد الفريضة، بل جميع النوافل ما عدا التراويح.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:442
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-27

 




قعدۂ اخیرہ میں بیٹھنے کی فرض مقدار:

سوال:
    قعدۂ اخیرہ میں بیٹھنے کی فرض کی مقدار کیا ہے؟
جواب:
   قعدۂ اخیرہ میں بقدرِ تشہد، یعنی ”التحيات للہ تا عبدہ ورسوله “ صحیح تلفظ کےساتھ پڑھنے کی مقدار بیٹھنا فرض ہے، خواہ تشہد پڑھے یا نہ پڑھے؛ کیونکہ تشہد کا پڑھنا فرض نہیں بلکہ واجب ہے۔

حوالہ جات:
1. الحلبي الكبير لإبراهيم الحلبي، كتاب الصلاة، فصل في فرائض الصلاة، ص: 253 :
   وقدر الفرض في القعدة هو القعود مقدار أدنى قراءة التشهد، وهو أسرع ما يكون مع تصحيح الألفاظ؛ لقوله عليه الصلاة والسلام: إذا قلت هذا، أو فعلت هذا، فقد تمت صلاتك.
2. الفتاوى التاتارخانية لعالم بن علاء الهندي، كتاب الصلاة، فصل في القعدة الأخيرة 2/ 128:
   وقدر الفرض فیھا مقدار قراءة التشهد، وفي المنافع: وهو إلى قوله: عبده ورسوله، وقيل: القدر المفروض ما يأتي  فيه بكلمة الشهادتين، والأول أصح.
3.الجوهرة النيرة لأبي بكر الحدادي، كتاب الصلاة، باب صفة الصلاة 1/ 135:
(فرائض الصلاة ستة) … قوله: (والقعدة في آخر الصلاة مقدار التشهد) أي من قوله: التحيات إلى عبده ورسوله، هو الصحيح.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:441
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-29

 




@123پرندوں کاپالنااورقیدکرکے رکھناکیساہے؟

سوال:
پرندوں كو پنجرے میں بند کرکے قید میں رکھنا جائز ہے، بعض لوگ کہتے ہیں کہ چھوٹے طوطے جو رنگ برنگ ہوتے ہیں، پنجرے کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے، اس لیے ہم ان کو پنجرے میں بند کرکے پالتے ہیں ان کا یہ کہنا کیسا ہے؟
جواب:
بہتریہ ہے کہ پرندوں کو اپنی اصلی فطرت پر چھوڑتے ہوئے با لکل ازاد چھوڑا جائے، تاہم بوقتِ ضرورت پنجرہ میں بند کرنا بھی جائز ہے، بشرطیکہ ان کہ خوراک، گرمی، سردی وغیرہ سے بچنے کا خیال رکھا جائے۔

حوالہ جات:
لما في رد المحتار لابن عابدين، كتاب الحظر والإباحة، فصل في البيع 6/ 401:
قوله: (وأما للاستئناس فمباح) قال في المجتبى رامزا: لا بأس بحبس الطيور والدجاج في بيته.
وفي مرقاة المفاتيح لملا علي القاري، كتاب الآداب، باب المزاح 7/ 3062:
وإنه لا بأس أن يعطى الصبي الطير ليلعب به من غير أن يعذبه.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:465
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-27




@123رخصتی سےپہلےبیوی کا شوہرکی اجازت کےبغیرکہیں جانا

سوال:
رخصتی سے پہلے شوہرکا اپنی منکوحہ کو کسی کام سے منع کرنا کیسا ہے؟
جواب:
جس عورت كا نكاح ہوچکا ہو لیکن رخصتی نہ ہوئی ہو تو ہمارے عرف میں یہ منکوحہ عورت ماں باپ کے اختیار میں ہوتی ہے، لہذا رخصتی سے پہلے یہ عورت والدین کی اجازت سے کہیں بھی جاسکتی ہے، شوہر کو منع کرنےکا حق حاصل نہیں ہوگا۔

حوالہ جات:
لما في البحر الرا ئق لزین الدین ابن نجیم، كتاب الطلاق، باب النفقة 4/ 211:
وفي الفتاوى في باب المهر: والمرأة قبل أن تقبض مهرها، لها الخروج في حوائجها، وتزور الأقارب بغير إذن الزوج، فإن أعطاها المهر، ليس لها الخروج إلا بإذن الزوج.
وفي تبيين الحقائق للزيلعي، كتاب الطلاق، باب النفقة 3/ 58:
وفي الفتاوى في باب الغزاة: المرأة قبل أن تقبض مهرها، لها أن تخرج في حوائجها، وتزور الأقارب بغير إذن الزوج، فإن أعطاها المهر، ليس لها الخروج إلا بإذن الزوج.

واللہ أعلم بالصواب
ابوبكراحسان كاكاخیل
متخصص جامعة دارالعلوم كراچی

فتوی نمبر:464
دارالإفتاء أنوار الحرمين، مردان
تاریخ إجراء:2024-01-27